اصلی اہل حدیث کون؟؟؟

Monday, May 25, 2015
کن علوم وفنون میں مہارت کی وجہ سےآدمی اہلِ حدیث ہوسکتا ہے؟
علم وفن میں کس کی رائے کا اعتبار کیاجاتا ہے؟
کیا ہر غیر مقلد محقق ہے؟
کیا ہرغیرمقلد مجتہد ہے؟
دین پر عمل کرنے کے لئے کیا کسی امام کی پیروی کرناضروری ہے؟
کیا نااہل کو تحقیق و استنباط کی اجازت ہے؟
تحقیق اور استنباط نااہل کا کام کیوں نہیں.....!
اندھی تقلید کیا ہے؟
نااہل کو تحقیق کا حق نہیں... اس کی دلیل کیا ہے؟
سلف کی نظر میں اہلِ حدیث سے کون مراد ہیں؟
      کیاعصر ِحاضر کےغیر مقلدین اہلِ حدیث ہیں؟
 

کن علوم وفنون میں مہارت کی وجہ سےآدمی اہلِ حدیث ہوسکتا ہے؟
جماعت یا فرقہ اسے کہتے ہیں جو اصول و فروع میں ایک نظریہ پر متفق ہیں، جیسے متقدمین و متاخرین علماء کی کتب میں متعدد فرق کا ذکر ہے، مثلا مرجئہ، قدریہ ،جبریہ، معتزلہ، خوارج، روافض وغیرہ ،ان فرقوں کا بطور فرقہ ذکر ہے مثلا مرجئہ بالکل اعمال کی ضرورت کو محسوس ہی نہیں کرتے، دخول جنت کے لئے نفس ایمان کو کافی سمجھتے ہیں، تو  ایک خاص نظریہ رکھنے والے گروہ کو مرجئہ سے موسوم کیا گیا۔ جبکہ قابل غور بات یہ ہے کہ اہل حدیث اگر کوئی فرقہ ہوتا اگرچہ حقانی ہوتا تو اس طریق پر ان کا ذکر ضرور ہوتا یعنی یہ کہا جاتا کہ یہ خوارج کا مسلک ہے اور اس کے مقابلے میں اہل حدیث کا مسلک یہ ہے جبکہ ایسا نہیں تو اس طرح ذکر نہ کرنے کی وجہ یہی ہے کہ اہل حدیث کہتے ہی ایسے اشخاص و افراد کو ہیں جو خدمت حدیث میں روایتہ و درایۃ معروف ہو، قطع نظراس سے کہ اس کا اپنا فقہی مسلک کیا ہے۔
چنانچہ جب ہم محدثین کا تذکرہ دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ احناف شوافع مالکیہ حنابلہ سب ہی اہل حدیث گزرے ہیں ،الغرض اہل حدیث   سے مراد محدثین کا طبقہ ہے چاہے وہ کسی بھی مسلک سے تعلق رکھتے ہوں ،اہل حدیث  یعنی محدثین کے زمرے میں شامل ہونے کے لئے مندرجہ ذیل علوم پر مہارت ضروری ہے:
1۔علم الجرح والتعدیل
یہ فن علوم الحدیث میں ایک رکن رکین کادرجہ رکھتا ہے اسی علم کی بناء پر احادیث صحیحہ وسقیمہ کےمابین فرق وامتیاز قائم  کیاجاسکتا ہے۔
ہرزمانہ میں بکثرت علمائے جرح وتعدیل پیدا ہوئے  مگر متقدمین متاخرین کےمقابلہ میں اس فن میں زیادہ پختہ کار اور تجربہ کار تھے،ان علماء نے راویان حدیث کو عدل وانصاف کےترازو میں رکھ کر تولا اورہر ایک کو اس کامناسب مقام دیا،ثقہ اور ضعیف راویوں کے نام پر کئی کتابیں لکھی گئیں ہیں۔
2۔معرفۃ الصحابہ
اصحاب رسول کو ان کےناموں اور کنیتوں سے پہچاننا ایک بڑا جلیل القدر فن ہے ،متقدمین ومتاخرین علمائے حدیث اس کے ساتھ بڑی دلچسپی لتیے رہے ہیں؛کیونکہ اس علم کی بدولت یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ حدیث متصل ہے یامرسل ہے،اس موضوع پر کئی کتابیں لکھی گئی ہیں،مثلا: کتاب الصحابہ لابن حبان،کتاب ابونعیم،،معرفۃ الصحابہ،الاستیعاب،اسدالغابہ،الاصابہ وغیرہ۔
3۔علم  تاریخ الرواۃ
محدثین نے راویان حدیث کی تاریخ ،ان کے علمی سفروں ان کی بود وباش ،ان کی تاریخ ولادت ووفات اور دیگر احوال سے تفصیلی بحث کی  ہے،اس میں شبہ نہیں کہ راویوں کےحالات ان کی ثقاہت اور ضعف پر اثر انداز ہوتے ہیں ،محدثین نے تفصیلا بتایا کہ کس عمر میں فلاں راوی کاحافظہ درست تھا اورکس وقت وہ غفلت واختلاط  کاشکار ہوا،انہوں نے ہر بات کو اس طرح کھول کربیان کیا ہے کہ شک وشبہ کی کوئی  گنجائش باقی نہیں رہتی ،مثلا وہ کہتے ہیں  کہ فلاں راوی فلاں سال پیدا ہوا جب حدیث سننے کا اغاز کیا تواس کی عمر اتنی تھی فلاں وقت فلاں فلاں شہر میں گیا اور فلاں محدث سے حدیث سنی فلاں سے ملا اور فلاں سے نہ مل سکا، فلاں شخص کا حافظہ وفات سے اتنے ماہ یاسال پہلے خراب ہوگیا،فلاں شخص نے فلاں شخص سے حافظہ خراب ہونے سے پہلے حدیث سنی اس لئے قابل قبول ہے،وغیرہ۔
4۔ نام کنیت اورلقب کی پہچان
بعض اوقات کسی راوی کا ایک نام اور کنیت یا نام  اور لقب ہوتا ہے،کبھی وہ اپنے نام کے ساتھ مشہور ہوتا ہے کنیت کے ساتھ نہیں اور کبھی اس کے برعکس،جو شخص اس بات سے آگاہ نہیں وہ ان کو دو  راوی خیال کرےگا،بعض اوقات سند میں راوی کاذکر راوی کا نام اور کنیت دونوں کے ساتھ کیا جاتا ہے،ایک بےخبرآدمی ان کو دوراویوں پر محمول کرتا ہے اس کا نتیجہ بعض اوقات یہ ہوتا ہے کہ ثقہ راوی کو ضعیف اور ضعیف کو ثقہ قراردیتا ہے ۔
5۔علم تاویل مشکل الاحادیث
مشکل الحدیث سے مراد یہ ہے کہ دو حدیثیں بظاہر آپس میں معارض ہوں،محدثین نے اس قسم کی احادیث کےبارے میں گفتگو کی ہے اوران کےتعارض کودور کرنے کی کوشش کی ہے  اس نوع کےبارے میں صرف فقہائے محدثین ہی بات کرسکتے ہیں  جو احادیث کے معانی ومطالب کےسمندر میں غوطہ زن ہوچکے ہوں،اس علم کی بدولت  حدیث رسول سے تعارض وتناقض دور ہوتا  اور شرعی احکام کے بارے میں اطمینان قلب نصیب ہوتا ہے۔
6۔معرفۃ الناسخ والمنسوخ
نسخ کا مطلب یہ ہے کہ سابقہ حکم اٹھاکر اس کی جگہ نیا اورمتاخر حکم لایاجائے،متاخر حکم کو ناسخ اورمتقدم کو منسوخ کہتے ہیں،نسخ کے شرائط اصول فقہ کی کتب میں مذکور ہیں۔
صحابہ وتابعین ودیگر سلف صالحین ناسخ ومنسوخ کو بہت ضروری خیال کرتے تھے ،یہ بڑا دشوار علم ہے بجز ان محدثین کےجو اسلامی فقہ کی تاریخ سے بخوبی آگاہ وآشنا ہوں ۔
7۔معرفۃ غریب الحدیث
غریب الحدیث سے حدیث کی وہ رقیق وعمیق کلمات مراد ہیں جو نادر الاستعمال ہونے کی وجہ سے بعید عن الفہم ہوں ،امام ابوسلیمان الخطابی فرماتے ہیں :کلام میں غریب وہ بات ہوتی ہے  جو غامض اور بعید عن الفہم ہو جس طرح لوگوں میں غریب اس شخص کو کہتے ہیں  جو وطن سے دور اور گھر والوں سے الگ ہو ،کلام میں غریب  کا اطلاق دو طرح سے ہوتا ہے،  ایک یہ کہ وہ نہایت عسیر الفہم  ہو اور بڑے غور وفکر سے اس کا مطلب سمجھا جاسکتا ہے،  دوسرا یہ کہ اس کا بولنے والا کسی دور علاقے کا رہنے والا ہے او رہم ایسے الفاظ سے مانوس نہیں۔دور تابعین میں جو عرب اور عجم کا امتزاج ہوااور عربی وعجمی الفاظ  مل گئےتو الفاظ  حدیث کو سمجھنے کے لئے علماءنے اس  فن میں کوششیں کیں۔
8۔معرفۃ علل الحدیث
محدثین کی اصطلاح میں علت ان پوشیدہ اور دقیق اسباب کو کہتے ہیں جو حدیث کی صحت میں قدح وارد کرنے والے ہوں اوربظاہر حدیث میں کوئی عیب نہ پایاجاتا ہو ،بعض اوقات علت اس اسناد میں بھی پائی جاتی ہے جس کے راوی ثقہ ہوتے ہیں اور جو بظاہر شرائط صحت کی جامع ہوتی ہے ۔
یہ علم حدیث نبوی کے متعلقہ علوم میں سے نہایت افضل واشرف مگر دقیق وعمیق ہے اس علم میں رائے زنی کے اہل وہی محدثین ہیں جو علوم الحدیث میں نہایت راسخ قوی الحافظہ اور روشن عقل وفکر رکھنے والے ہوں ،یہی وجہ ہے کہ علل الحدیث کے موضوع  پر صرف انہی محدثین نے گفتگو کی ہے جو اپنے فن میں یکتا ئے روزگار حدیث نبوی کے جید فاضل اور طبیب الحدیث تھے ۔
9۔معرفۃ الموضوعات
موضوع احادیث کو پہچاننے کے لئے علماء نے دو راستے اختیار کئے ایک نظری دوسرا علمی،نظری کا مطلب یہ ہے کہ علماء نے ایسے قواعد بنائے جن سے وضع حدیث کا پتہ چل جاتا ہے ،علمائے حدیث نے ایسے علامات مقرر کئے جن سے کسی شک وشبہ کےبغیر موضوع حدیث کو پہچانا جاسکتا ہے۔
دوسرا عملی  طریقہ یہ ہے کہ انہوں نے واضعین کے نام بتائے اور عام طور پر لوگوں کو ان سے آگاہ کیا  دوسری طرف ان احادیث پر روشنی ڈالی  جو انہوں نے وضع کی تھیں اس ضمن میں کتب الموضوعات کےنام سے کتابیں لکھیں۔
10۔علم اصول الروایہ
علم اصول الروایہ ایک ایسا علم ہے جس میں روایت حدیث کی حقیقت اس کے شروط انواع واحکام راویوں کے احوال وشروط مرویات کے اقسام اوران کے متعلقات سے بحث کی جاتی ہے، اس علم کو علم مصطلح الحدیث بھی کہتے ہیں،اس علم کی بدولت پتہ چلتا ہے کہ احادیث میں سے مقبول کونسی ہیں اور مردود کون سی ہیں۔
علم وفن میں کس کی رائے کا اعتبار کیاجاتا ہے؟
کیا ہر عالم سے مسئلہ معلوم کیاجاسکتا ہے
یہ بات تو بہت مناسب ہے کہ عوام اہل علم سے مسئلہ معلوم کر کے شریعت پر عمل کریں قران کا بھی یہی حکم ہے، جیسا کہ آیت فاسئلو اھل الذکران کنتم لا تعلمون سے واضح ہے۔
اگر یہ دور نفسانیت کا نہ ہوتا اور اہل علم میں انصاف اور عدل پایا جاتا اور شریعت پر عمل کرانے میں کوئی مخصوص جذبہ یا فکر اور عقیدہ کا م کرتا نظر نہ آتا، اور جن کو عوام اہل علم سمجھتے ہیں ان میں اتنی دیانت اور تقوی ہوتا کہ وہ مسائل کے بتلانے میں اسلاف کی راہ اعتدال و جادہ مستقیم سے گریز نہ کرتے، مسائل بتلانے والے علماءراسخین میں سے ہوتے اور ان کو مسائل شرعیہ سے پوری واقفیت ہوتی، وہ کتاب و سنت کے ناسخ و منسوخ سے واقف ہوتے، وہ کسی مخصوص نظریہ و مذہب کی پابندی کرانے کے بجائے جو واقعی شرعی مسئلہ ہے اس سے عوام کو واقف کرانے کا ان میں جذبہ و خلوص ہوتا تو اس کی اجازت ضرور دی جاتی کہ عوام جس عالم سے چاہیں ان سے مسائل معلوم کر کے ان پر عمل کریں۔
مگر اس وقت ہم لوگ جس دور سے گزر رہے ہیں یہ دور بڑے فتنہ کا ہے طرح طرح کے مذاہب پیدا ہو گئے ہیں، کم علم عالم و مفتی بنے پھر رہے ہیں، ہر شخص محقق و علامہ بنا ہے، انانیت کا عالم یہ ہے کہ اپنی تحقیقات کے آگے اکابر و اسلاف کو وہ کچھ نہیں سمجھتا ،کتاب و سنت میں کیا ہے اس کا اس کو پتہ نہیں مگر وہ شرعی مسئلہ بتلانے کو تیار ہے، اپنی تحقیق کو حرف آخر سمجھتا ہے اور اسے اصرار ہوتا ہے کہ جو ہم نے سمجھا ہے وہی حق اور درست ہے، بڑے طنطنہ سے دعوی کیا جاتا ہے کہ صحابہ کرام کے فتاوی اور ان کے اقوال حجت نہیں ہیں، فقہاءامت نے جو کچھ کہا ہے وہ غیر معتبر ہے، اور بے شرمی کا عالم یہ ہے کہ صحابہ کرام اور فقہائے امت کے اقوال کو ناقابل اعتبار قرار دینے والا اس پر مصر ہوتا ہے کہ وہ جو کہے اسے مان لو خواہ وہ اس کی ذاتی رائے اور اس کا اپنا اجتہاد و استنباط ہی کیوں نہ ہو۔
ہر شخص کی ایک فکر ہے، ایک مذہب ہے، اس کا اپنا عقیدہ ہے، اس کی اپنی تحقیق ہے، وہ اپنے ہی دائرہ میں رہ کر مسئلہ بتلائے گا چاہے وہ مسئلہ کتاب و سنت سے کتنا ہی متصادم اور شریعت کے خلاف کیوں نہ ہو، اس سے اس کی توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ کتاب و سنت کا صحیح مسئلہ بتلائے گا اور اسلاف واکابر کے جادہ مستقیم سے بہکا ئے گا نہیں۔طلاق کے مسئلہ میں غیر مقلدین سب کو اپنے مذہب والا مسئلہ بتلائیں گے، حالانکہ ان کا یہ مسئلہ اجماع امت اور کتاب و سنت کے صریح خلاف ہے،اگر اس مسئلہ میں غیر مقلدین کی بات کو مان لیا جائے تو فیصلہ کرنا پڑے گا کہ امت کے تمام فقہاء، محدثین اور علماءاس شرعی مسئلہ سے جاہل تھے حتی کہ صحابہ کرام تک کو یہ مسئلہ معلوم نہ تھا۔ اس زمانہ میں حق کا دروازہ صرف غیر مقلدین پر کھلا۔
تراویح کا مسئلہ آپ غیر مقلدین سے پوچھیں وہ کہیں گے کہ تراویح اٹھ رکعت ہے حالانکہ جمہورامت کے یہاں اٹھ رکعت تراویح کا کوئی وجود نہیں، نہ صحابہ کرام نے کبھی آٹھ رکعت تراویح پڑھی۔ اگر غیر مقلدین کی بات کو حق سمجھ لیا جائے تو کہنا پڑے گا کہ یہ مسئلہ اسلاف امت کو معلوم نہیں تھا حتی کہ صحابہ کرام کو بھی اس صحیح مسئلہ پر عمل کرنے کی معاذ اﷲ توفیق نہیں ہوئی۔
یہ تو غیر مقلدین کی بات ہے، بریلویوں کا حال ان سے برا ہے، ان سے شرعی مسائل معلوم کرنے کا نتیجہ یہ ہو گا کہ آپ شرک و بدعت کی لعنت میں گرفتار ہو جائیں گے، پھر آپ کا عقیدہ یہ بنے گا کہ آنحضرت  عالم الغیب تھے، مختار کل تھے، اولیاءاﷲ کو تصرف فی الکائنات حاصل تھا،  عرس کرنا ، قبروں پر پھول چڑھانا، نذر و نیاز کرنا سب دین ہے اور سب کام جائز ہیں۔
یہی حال شیعوں کا ہے، وہ آپ کو صحابہ کرام اور خلفائے راشدین سے بدظن گمراہ کریں گے، حضرت علی کی الوہیت اور ائمہ اہل بیت کی معصومیت ثابت کریں گے، تعزیہ بنانے کو اور نوحہ ماتم کرنے کو سب سے بڑا دینی کام قرار دیں گے۔
اگر آپ دینی مسئلہ قادیانیوں سے پوچھیں گے تو آپ کو سب سے پہلے مرزا کی نبوت پر ایمان لانا پڑے گا اورحضور اکرم  کو نبی اخرالزماں ماننے کے عقیدہ سے دامن جھٹکنا ہو گا۔
اگر آپ آزاد فکروں کے گروہ میں پہنچ گئے تو پھر وہ آپ کو الحاد دھریت کی راہ پر ڈال دیں گے، کوئی معجزہ کا منکر نظرآئے گا، کوئی جنت و دوزخ کا انکار کرنے والا ہو گا، کسی کو فرشتہ کی کوئی حقیقت نظر نہیں آئے گی ، کوئی انبیاءکی عصمت کی دھجیاں بکھیرتا نظرآئے گا،کسی کو قران و حدیث کے بارے میں متقدمین کے علوم فرسودہ اور پرانے ذخیرے نظر آئیں گے۔
غرض ہر شخص سے مسئلہ معلوم کرنے میں آپ کو بھانت بھانت کی بولیاں سننے کو ملیں گی اور شریعت کے مسائل پر عمل کرنا تو درکنار اندیشہ ہے کہ شریعت ہی سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔
اس زمانہ میں جو علمی قحط ہے وہ سب کو معلوم ہے، جو اجتہاد کے دعویدار ہیں ان کو کتاب و سنت میں کیا ہے اس کا پتہ ہی نہیں، نہ کتاب و سنت کے ناسخ کو جانیں نہ ان کے منسوخ کا انہیں پتہ ہو، نہ ائمہ دین کے فتاوی اور ان کے فیصلوں پر ان کی نگاہ ہوتی ہے، آخر ایسے لوگوں پر خواہ وہ زمانہ حال کے شیخ الاسلام ہی کیوں نہ ہوں کیسے اعتماد کیا جا سکتا ہے اور دین کے صحیح مسائل ان سے کیونکر جانے جا سکتے ہیں۔
مثال کے طور پر مشہور غیر مقلد عالم مولانا صادق سیالکوٹی ہی کو لے لیجئے انہوں نے صلوٰة الرسول نامی ایک کتاب لکھی ہے جس میں عوام کو حضور اکرم  کی نماز سکھلائی گئی ہے، اس کتاب کی بڑے بڑے مشاہیر غیر مقلدین علماءنے تقریظ و تعریف کی ہے جو اس کتاب کے ساتھ شائع ہوئی ہے، اس میں انہوں نے یہ مسئلہ لکھا ہے کہ پانی میں نجاست پڑنے سے خواہ اس کا رنگ، مزہ، بو بدل جائے وہ پانی پاک ہی رہے گا۔ نجس نہیں ہو گا، حالانکہ یہ بالکل غلط بات ہے، پانی میں نجاست پڑنے سے خواہ پانی کثیر ہی کیوں نہ ہو اگر اس کا ایک وصف بھی بدلا تو پانی ناپاک و نجس ہو گا اس سے طہارت حاصل نہیں کی جا سکتی۔ صادق صاحب نے متعدد حدیثوں کو غلط حوالوں سے نقل کیا ہے یعنی جن کتابوں کی طرف ان حدیثوں کی نسبت کی ہے ان میں وہ حدیث ہی نہیں، اور اگر وہ حدیث ہے تو ان الفاظ کے ساتھ نہیں جن کا ذکرصادق صاحب نے کیا ہے، اب شرعی مسائل میں اس طرح کے علماءپر کیسے اعتماد کیا جا سکتا ہے۔
مولانا ثناءاﷲ صاحب امرتسری غیر مقلدین کے شیخ الاسلام ہیں، انہوں نے اپنے رسالہ  "اہلحدیث کا مذہب  "میں یہ آیت نقل کی ہے فلا و ربک لا یومنون حتی یحکموک فیما شجر بینھم(سورہ النساءع۹) اور اس کا ترجمہ کیا ہے۔
جب تک لوگ ہر مذہبی بات میں پیغمبر  کے تابع نہ ہوں گے کبھی مسلمان نہ بن سکیں گے۔
۲۳)
آپ قران کا ترجمہ اور کوئی تفسیر دیکھ لیں، مولانا ثناءاﷲ صاحب والا یہ ترجمہ آپ کو کہیں نہیں ملے گا، ہر مذہبی بات اس آیت کے ترجمہ میں خاص مولانا امرتسری کا ایجاد کردہ جملہ ہے۔
یہ دو ایک باتیں اس بات کو بتلانے کے لئے بطور مثال ذکر کی گئی ہیں کہ زمانہ حال کے جو علماءمجتہدبن کر فتوی دیں گے وہ امت کو اسلاف کی شاہراہ سے گمراہ کر دیں گے نہ ان کے علم پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے اور نہ ان کے خلوص پر، ہر شخص ایک خاص نظریہ کا پابند ہے اسی کی روشنی میں وہ دوسروں کو چلانا چاہتا ہے۔
اس لئے امت کی بھلائی اور خیر اسی میں ہے کہ آدمی کتاب و سنت پر عمل کرنے کے لئے متقدمین علماءراسخین کا دامن تھامے، اور اس کا پابند رہے کہ وہ صحابہ کرام کے منہج اور ان کے اسوہ سے دور نہ ہو۔
مذاہب اربعہ کو اﷲ نے دین کی بقاءاور حفاطت کا تکوینی طور پر ذریعہ بنایا ہے امت نے ہر زمانہ میں انہیں مذاہب کے تابع رہ کر اپنی علمی و دینی زندگی کا کارواں آگے بڑھایا ہے، جب سے ان مذاہب کا وجود ہوا ہے امت کے اکابرین نے،محدثین نے، فقہاءنے، اولیاءاﷲ نے ان مذاہب میں سے کسی ایک کی تقلید کو اپنے لئے ذریعہ نجات سمجھا ہے، اور انہیں مذاہب کے سایہ میں رہ کر اپنی دینی زندگی کو سعادت جانا ہے، ان مذاہب کی تدوین کتاب و سنت اور سنت صحابہ کی روشنی میں ہوئی ہے، جو باتیں اجتہادی اور قیاسی ہیں ان کی بنیاد اور اصل بھی کتاب و سنت ہی میں موجود ہے، اسی وجہ سے تمام شرعی مسائل محقق اور مدون ہیں، ان پر عمل کرنے میں کسی طرح کی گمراہی، بد راہی کا اندیشہ نہیں ہے، ائمہ اربعہ ان خاصان خدا میں سے تھے جن کے علم و فہم، تقوی اور دیانت پر ساری امت کا اجماع ہے، آج کے دور میں کون ہے جو ان ائمہ کا ان اوصاف میں سے کسی ایک وصف میں بھی مقابلہ کر سکے، پس جب شروع ہی سے ساری امت نے اور امت کے اصحاب فضل و کمال نے ان ائمہ کو اپنا مقتدیٰ جاناہے اور ان پر کامل اعتماد کیا ہے تو ہمیں بھی ان کی اتباع میں ان ائمہ کی تقلید و اقتداءسے گریز نہ ہونا چاہئے۔ہمارے نزدیک سلامتی کا خصوصا اس دور پر فتن میں بس یہی ایک راستہ ہے کہ دینی و شرعی مسائل میں ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک  کی تقلید کی جائے۔
کیا ہر غیر مقلد محقق ہے؟
کون نہیں جانتا کہ ہرعلم وفن میں کمال ومہارت حاصل کرنے کے لیئے اس علم وفن کے ماہر ومستند لوگوں کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے اور اس علم وفن کے تمام شروط ولوازم اصول وقواعد کی پابندی لازمی ہوتی ہے ہر علم وفن کے اندر کچھ خاص محاورات واصطلاحات ہوتےہیں اور اتارچڑهاو کا ایک خاص انداز ہوتا ہے جس کا سمجهنا بغیرکسی ماہراستاذ کے ممکن نہیں ہے اور تو اور دنیوی فنون کو دیکھ لیجیے کہ بزور مطالعہ کسی بھی فن میں مہارت ناقابل قبول سمجھی جاتی ہے جب دنیوی فنون کا یہ حال ہے جوانسانوں کی اپنی ایجاد کرده ہیں ۔تو الله ورسول کے کلام کو پڑهنے وسمجهنے کے لیئے صرف ذاتی مطالعہ کیونکر کافی ہوگا جب کہ الله ورسول کے بیان کرده احکامات اور کلام وحی سے متعلق ہے جس میں انسانی عقل وسمجھ کو کوئی دخل نہیں ہے ۔اسی لیئے ابتداء سے ہی الله تعالی نے انبیاء ورسل کا سلسلہ مبارکہ جاری فرمایا اور یہ سلسلہ مبارکہ جناب محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم كى بعثت مباركه پرہمیشہ ہمیشہ کے لیئے ختم ہوچکا ہے اگر صرف انسانی مطالعہ ہی کافی ہوتا تو الله تعالی بجائے نبی ورسول بھیجنے کے صرف کتابیں نازل کرتا اور انسان اس کی مد د سے ازخود الله تعالی کی معرفت اور الله تعالی کے کلام کی مراد ومقصود کی فہم حاصل کرتا لیکن تاریخ اور کتاب وسنت کی صریح نصوص سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ الله تعالی نے کوئی ایسی کتاب نازل نہیں کی جس کے ساتھ مُعلم یعنی نبی کو نہ بھیجا هو " تورات " کے ساتھ حضرت موسی " انجیل " کے ساتھ حضرت عیسی " زبور " کے ساتھ حضرت داؤداور اسی طرح " صُحُف " حضرات ابراہیم کے ذریعہ لوگوں کو پہنچے صلوات الله وسلامه علیهم اجمعین اورقرآن مجید جوسید الکتب ہے جناب خاتم الانبیاء محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم پرنازل کی گئی ۔ کیا ان کتب الہیہ کے تصور کوبغیر انبیاء ورسل کے کوئی کامل ومکمل تصور کہا جاسکتا ہے ؟ یقینا کوئی بھی سنجیده انسان اس بات کا جواب اثبات میں نہیں دے سکتا ، اگر صرف کتابوں کے ذریعہ صحیح نتیجہ تک پہنچنا ممکن ہوتا اور خود ہی کتاب پڑھ کر الله تعالی کی مُراد ومقصود حاصل کرنا ممکن ہوتا تو ان انبیاء صلوات الله وسلامه علیهم اجمعین کی بعثت کیوں ضروری تھی ؟ قران مجید خاتم الکتب ہے جو خاتم الانبیاء محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم کے واسطہ سے هم تک پہنچا اگر صرف کتاب کے ذریعہ صحیح نتیجہ تک پہنچنا ممکن ہوتا توخاتم الانبیاء محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم کے فرائض منصبی میں سے ایک اہم فرض تلاوت آیات اور تعلیم کتاب کیوں لازم کیا گیا ؟ آپ كى بعثت مبارکہ کیوں ضروری تھی اور اس قدر اذیت وتکلیف ومشقت کی تاریخ کیوں مرتب کی گئی ؟ کیا اہل مکہ عربی زبان نہیں سمجهتے تھے ؟ قران کسی ذریعہ سے نازل کردیا جاتا اور عوام وخواص اس کو پڑھ کر ازخود سمجهنے کی کوشش کرتے ، اسی طرح حضرت جبریل علیہ السلام کو درمیان میں کیوں واسطہ بنایا گیا خود براه راست خاتم الانبیاء محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم تک قران مجید پہنچا دیا جاتا لیکن ایسا نہیں کیا گیا جس میں واضح تعلیم ہے کہ بغیراستاذ ومُعلم صرف کتابوں کے ذریعہ قران وحدیث کا مقصد ومطلب وحقیقی مراد پالینا ممکن نہیں ہے ۔
اسی " سُنة الله " کے تناظرمیں یعنی کتاب کے ساتھ مُعلم کا هونا ضروری ہے علماء حق علماء دیوبند کا یہی مسلک ہے کہ دین صرف کتابی حروف ونقوش کا نام نہیں ہے اور نہ دین کو محض کتابوں سے سمجها جاسکتا ہے ، الله تعالی نے ہمیشہ کتاب کے ساتھ رسول کو مُعلم بنا کر اس لیئے بھیجا تاکہ وه اپنے قول وفعل وعمل سے کتاب کی تفسیر وتشریح کرے ، چنانچہ ایسی مثالیں توملتی ہیں کہ دنیا میں رسول بھیجے گئے مگرکتاب نہیں آئی ، لیکن ایسی مثال ایک بھی نہیں ہے کہ صرف کتاب بھیج دی گئی هو اور اس کے ساتھ رسول مُعلم بن کر نہ آیا هو ، الله تعالی کی یہ سنت بتلاتی ہے کہ دین کو سمجهنے سمجهانے اور پھیلانے پہنچانے کا راستہ وطریقہ صرف کتاب نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ وه اشخاص وافراد بھی ہیں جو کتاب کا عملی پیکربن کراس کتاب کی تشریح وتفسیر کرتے ہیں ، لہذا دین کوسمجهنے کے لیئے " کتابُ الله اور رجالُ الله " لازم وملزوم کی حیثیت رکهتے ہیں ، ان میں سے ایک کودوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا ، لہذا " کتاب الله " کو جناب خاتم الانبیاء محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم کی تفسیر وتشریح کی روشنی میں اور سنت وحدیث رسول الله صلى الله عليه وسلم کو صحابہ کرام وتابعین وتبع تابعین وسلف صالحین کی تفسیر وتشریح وتحقیق کی روشنی میں ہی ٹھیک ٹھیک سمجها جاسکتا ہے ، اس کے بغیر دین کی اور قران وحدیث کی تعبیروتشریح کی ہرکوشش گمراہی کی طرف ہی جاتی ہے۔
تمام صحابہ کرام اہل لسان تھے عربی ان کی مادری زبان تھی مگر مقاصد قران سمجهنے کے لیئے جناب خاتم الانبیاء محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم کی تفسیر وتشریح وتعلیم کے محتآج تھے اورآپ کی طرف ہی رجوع کرتے تھے اپنی سمجھ وفہم کوانهوں نے کافی نہیں سمجها ، اورصحابہ کرام اہل لسان هونے کے ساتھ ساتھ فصاحت وبلاغت اورتمام دیگرصفات میں اعلی مقام رکهتے تھے لیکن اس کے باوجود قران سمجهنے کے لیئے خاتم الانبیاء محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم کی طرف ہی رجوع کرتے تہے ۔تومعلوم هوا کہ صرف عربی لغت پڑھ لینا بھی کافی نہیں اور نہ صرف مطالعہ کافی ہے اورتاریخ وتجربہ شاہد ہے کہ جس شخص نے بھی اساتذه وماہرین کی مجلس میں بیٹھ کر باقاعده تمام اصول وقواعد کی روشنی میں علم دین حاصل نہیں کیا ، بلکہ قوت مطالعہ کے ذریعے کتاب وسنت سمجهنے کی کوشش کی توایسا شخص گمراہی سے نہیں بچا ، اسی طرح جس شخص نے اپنے ناقص عقل وفہم پراعتمادکیا اور کسی ماہر مستند استاذ ومُعلم سے باقاعده علم حاصل نہیں کیا توایسا شخص خود بھی گمراه هوا اور دیگر لوگوں کو بھی گمراه کیا ۔ اورآج کے اس پرفتن دور میں لوگ اردو کے ایک دو رسالے پڑھ کر اور قران وحدیث کا اردوترجمہ پڑھ کر بڑے فخرکرتے ہیں کہ اب ہم کو کسی امام ومعلم کی کوئی ضرورت نہیں ہے اب ہم بڑے کامل ہوچکے ہیں ایسے جاہل لوگ اپنے ناقص عقل وفہم کی مدح سرائی کرتے ہوئے تهکتے نہیں ہیں اور آج کل جاہل عوام میں یہ وبا فرقہ جدید نام نہاد اہل حدیث کی جانب سے پھیلائی جارہی ہے ہرجاہل ومجهول کو مجتہد کا درجہ دیا ہوا ہے اور فی زمانہ وسائل اعلام ( میڈیا کے ذرائع ) کی کثرت کی بنا پر اس فرقہ جدید نام نہاد اہل حدیث میں شامل ہرکس وناکس انتہائی دلیری کے ساتھ اپنی جہالت وحماقت وضلالت کو ہرممکن ذریعہ سے پھیلا رہا ہے۔ اسی لیئے احادیث صحیحہ میں ایسے شخص کے لیئے جہنم کی سخت وعید وارد ہوئی ہے کہ جوشخص اپنے خیال ورائے سے یا بغیر علم کے قران میں کوئی بات کرتا ہے ۔
چند احادیث مبارکہ ملاحظہ کریں
1. عن ابن عباس رضي الله عنهما قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : من قال في القران برايه فليتبوا مقعده من النار .
2. عن ابن عباس رضي الله تعالى عنهما عن النبي صلى الله عليه وسلم قال : من قال في القران بغير علم فليتبوا مقعده من النار
3. عن جندب بن عبد الله البجلي رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم " من قال في القران برايه فاصاب فقد اخطا
4. عن ابن عباس قال : من تكلم في القران برايه فليتبوا مقعده من النار .

( تفسير البغوي الجزء الاول)
5. عن ابن عباس قال: قال رسول الله صلي الله عليه وسلم : (( من قال في القران بغير علم فليتبوا مقعده من النار٠ 
(رواه الترمذي، كتاب تفسير القران باب ما جاء في الذي يفسر القران برايه،)
خلاصہ ان روآیات کا یہ ہے کہ جس شخص نے قران میں اپنی رائے وخیال سے بات کی یا بغیرعلم کے کوئی بات کی تو وه شخص اپنا ٹهکانہ جہنم بنا لے یا قران میں اپنی رائے سے کوئی بات کی اوربات صحیح بھی نکلے تب بھی اس نے خطا اور غلطی کی ۔
یقینا اتنی سخت وعید سننے کے بعد ایک مومن آدمی قران میں اپنی رائے وخیال سے بات کرنے کی جرات نہیں کرسکتا ، اوران احادیث کی روشنی میں فرقہ جدید نام نہاد اہل حدیث کی حالت کوملاحظہ کریں کہ ہرجاہل مجهول آدمی کو قران میں رائے زنی کا حق دیا ہوا ہے جب کہ اس فرقہ شاذه میں شامل اکثری لوگوں کی حالت یہ ہے کہ قران کے علوم ومعارف پر دسترس تو کجا قران کی صحیح تلاوت بھی نہیں کرسکتے ۔
ہمارے اسی زمانہ کے فتنوں کے سد باب اور روک تهام کے لیئے ہی حضور صلی الله علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرما دیا تها
عن معاوية رضي الله عنه: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "من يرد الله به خيرا يفقهه في الدين" 
(رواه فی الصحيحين )جس شخص کےساتھ اللہ تعالی بھلائی کا ارادہ فرماتے ہیں اس کو دین کی سمجھ عطا فرماتے ہیں،وانما العلم بالتعلم ، علم سیکهنے سے ہی حاصل هوتا ہے ۔
حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ الله فرماتے ہیں(وانما العلم بالتعلم ).مرفوع حدیث ہے جس کو ابن ابی عاصم اور طبرانی نے حضرت معاویہ رضي الله عنه سے ان الفاظ کے ساتھ روایت کیا:يا ايها الناس تعلموا انما العلم بالتعلم والفقه بالتفقه ومن يرد الله به خيرا يفقهه في الدين 
( اسناده حسن،فتح الباري ج 1 ص147)
حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ الله فرماتے ہیں کہ:والمعنى ليس العلم المعتبر الا الماخوذ من الانبياء وورثتهم على سبيل التعلم 
(فتح الباري ج 1 ص .148)
اس حدیث(يا ايها الناس تعلموا انما العلم بالتعلم الخ )کامعنی یہ ہے کہ معتبر ومستند علم وہی ہے جو انبیاء اور ان کے ورثاء یعنی علماء سے بطریق تعلیم وتعلم حاصل کیا جائے۔
یہاں سے یہ مسئلہ بالکل واضح هوگیا کہ جو لوگ اردو کے چند رسائل پڑھ کر یہ سمجهتے ہیں کہ اب هم مجتہد وامام بن چکے ہیں اب همیں کسی امام کی تقلید کی کوئی ضرورت نہیں ہے اب هم کو خود ہی قران وحدیث کو سمجهنا ہے، ایسے لوگ درحقیقت بہت بڑی غلط فہمی میں مبتلا ہیں اورایسے لوگوں کے ساتھ شیطان اس طرح کھیلتا ہے جس طرح بچے گیند کے ساتھ کھیلتےہیں .لہذا لائق اعتماد اورقابل عمل وہی علم ہے جو انبیاء علیهم السلام سے بطور اسناد حاصل کیا گیا هو ، یہی وجہ ہے اہل حق کے یہاں مدارس ومکاتب میں آج تک یہی مبارک طریقہ رائج ہے اور عہد نبوی سے لے کرآج تک منزل بہ منزل اس کا باضابطہ سلسلہ چلا آرہا ہے اور اہل حق کے یہاں علم حدیث کی تعلیم کے لیئے " اجازت " کی ضرورت لازم ہوتی ہے ، ایسا نہیں ہے کہ ہرشخص جاہل ومجهول اپنے آپ کو مُحدث ، مُفسر ، فقیہ وغیره القابات سے یاد کرے اور بغیرپڑھے  لکھے اجتهاد وامامت کا دعوی کرے ، 
تاریخ میں ایسے افراد کی کئی مثالیں موجود ہیں جنهوں نے اپنے عقل و فہم اور قوت مطالعہ پراعتماد کرکے قران وحدیث کو سمجهنے کی کوشش کی تو خود بھی گمراه هوئے اور اپنے ساتھ ایک خلق کثیر کوگمراه کیا ۔اور اس باب میں ان لوگوں کےسینکڑوں واقعات ہیں جنهوں نے بغیراستاذ ومُعلم فقط ترجمہ یا ظاهری الفاظ کوپڑھ کر راہنمائی حاصل کرنے کی کوشش کی تو وه صحیح مفہوم کو نہ پاسکے بلکہ صحیح مفہوم ومراد کواسی وقت پہنچے جب کسی اہل علم کی طرف رجوع کیا۔
حاصل کلام یہ ہے کہ گذشتہ تفصیل سے یہ بات خوب واضح هوگئی اور یہ حقیقت بالکل عیاں هوگئی کہ کسی بھی علم وفن کے حصول کے دو طریقے ہیں ۔
1. مطالعہ کے ذریعے بذات خود چند اردو یا عربی کتب ورسائل پڑھ کر
2. دوسرا طریقہ یہ ہے کہ کسی بھی باکمال وماهراستاذ ومُعلم کی مجلس میں باقاعده حاضر هوکر بالمشافه تمام شروط وآداب کی رعایت کرتے هوئے سبقا سبقا اس علم کو پڑها جائے۔
یقینا ان دونوں طریقوں میں پہلا طریقہ بالکل غلط اور گمراه کن ہے ۔
یقینی طور پرتحصیل علم کا مفید اور کامیاب اورقابل اعتماد طریقہ وه دوسرا طریقہ ہے اسی طریقہ کی طرف حضورصلى الله عليه وسلم نے ہماری راہنمائی فرمائی ہے تاریخ اورسلف صالحین کا عمل شاہد ہے کہ کسی بھی زمانہ میں اس کے خلاف نہیں کیا
کیا ہرغیرمقلد مجتہد ہے؟
۱۔  آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ: فَأَوْتِرُوا يَا أَهْلَ الْقُرْآن(ترمذی) اے اہل قرآن ! وتر پڑھو اور یہ بھی فرمایا تھا کہ: إِنَّ لِلَّهِ أَهْلِينَ مِنْ النَّاسِ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ مَنْ هُمْ قَالَ هُمْ أَهْلُ الْقُرْآنِ أَهْلُ اللَّهِ وَخَاصَّتُه(ابن ماجہ) اہل قرآن خاص اہل اللہ ہیں،کیا ان احادیث میں اہل قرآن سے موجودہ فرقہ اہل قرآن یعنی منکرین حدیث مراد ہیں؟
۲۔اس فرقہ نے جب اپنا نام اہل قرآن رکھ لیا تو اب قرآن ان کا ہوگیا ، اہلحدیث کا قرآن سے کوئی تعلق رہا یا نہیں؟
ایک  مسعودی فرقہ نے اہلحدیث سے کٹ کر اپنا نام جماعت المسلمین رکھ لیا، اب قرآن و حدیث میں جہاںمسلم کا لفظ آتا ہے وہ اپنا فرقہ مراد لیتا ہے اور اہلحدیث کو غیر مسلم کہتا ہے ، کیا اس میں وہ حق بجانب نہیں؟
۳۔اہل قرآن کا کہنا ہے کہ جب سے قرآن ہے اس وقت سے اہل قرآن ہیں، جب قرآن سچا ہے تو اہل قرآن یقینا سچے ہیں، اہل قرآن کو اس وقت تک جھوٹا نہیں کہا جاسکتا جب تک قرآن کو جھوٹا نہ کہا جائے؟ یہ اہل قرآن والے کہتے ہے،(جس طرح  نام نہاداہل حدیث اپنے آپ کو اہل حدیث کہتے ہیں)
۴۔اہل قرآن کا کہنا ہے کہ اہلحدیث کو قرآن کی بالکل سمجھ نہیں ہے چنانچہ نواب صدیق حسن نے تفسیر لکھی تو مولوی ثناء اللہ نے لکھا کہ سب شوکانی کی تفسیر ہے(مظالم روپڑی ص ۲۱) مولانا ثناء اللہ نے تفسیر لکھی تو علماء عرب و عجم نے اسے کافر اور مرتد قرار دیا، مولوی عنایت اثری نے تفسیر لکھی تو عبد اللہ روپڑی نے اس کو غلط قرار دیا ، عبد اللہ روپڑی نے تفسیر لکھنا شروع کی تو مولوی ثناء اللہ نے اس تفسیر کا نام کوک شاستر رکھا۔
۵۔اہل قرآن کا کہنا ہے کہ رسول اقدس صلی الله علیہ وسلم نے اہل قرآن کو خاص اہل اللہ فرمایا مگر اہلحدیث نہ اس زمانہ میں تھے نہ حضرت نے کبھی ان کو نجات پانے والے فرمایا۔
۶۔اللہ تعالی نے انسانوں کی جو یہ تقسیم فرمائی ہے کہ کچھ لوگ اہل ذکر ہوتے ہیں، باقی ناواقف، ان ناواقفوں کو اہل ذکر سے سوال کا حکم دیا ہے (النحل:۴۳)، آپ اس تقسیم کے قائل ہیں یا نہیں؟
 ۷۔اللہ تعالی نے کچھ لوگوں کو اہل استنباط قرار دیا ہے باقی لوگوں کو ان کی طرف لوٹنے کا حکم دیا ہے ۔ اس تقسیم کے آپ قائل ہیں یا نہیں؟
 ۸۔اللہ تعالی نے ہر قوم سے ایک یا چند ایک کو فقیہ بننے کا حکم دیاہے اور باقی ساری قوم کو ان کی فقہ ماننے کا حکم دیا ہے یا نہیں؟
(التوبہ:۱۲۲)
 ۹۔آپ کے فرقہ میں بھی یہ تقسیم ہے یا آپ کے فرقہ کے سب لوگ فقیہ ،اہل ذکر اور اہل استنباط ہیں؟
 ۱۰۔آپ کے فرقہ کے وہ لوگ جو اہل استنباط اور فقیہ نہیں اور ان پر بھی کتاب و سنت کے مطابق زندگی گزارنا لازم ہے یا نہیں؟
 اگر وہ لوگ احکام کے پابند ہیں تو ان کیلئے ایسے اجتہادی احکام جاننے کا کیا راستہ ہے اور اس راستہ کا اختیار کرنا ان پر فرض ہے یا واجب؟
 آپ نے عمر بھر اللہ کی عبادت اور اللہ کے بندوں سے معاملات اجتہادسے کئے یا تقلید سے ؟
 ۱۱۔اجتہاد کے کیا کیا شرائط ہیں؟ آپ سب میں موجود ہیں یا بعض میں، جو لوگ اجتہاد کی قوت نہ رکھتے ہوئے اجتہاد کریں وہ فافتوا بغیر علم فضلوا و اضلو(بخاری،باب کیف یقبض العلم) کے مصداق ہیں یا نہیں؟
 ۱۲۔کیا آپ تمام مسائل میں اجتہاد کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں یا بعض میں، اپنے خاص اجتہاد کے کم از کم دس نمونے پیش فرمائیں اور کم از کم دس مسائل وہ لکھیں جن میں آپ نے تقلید فرمائی ہو؟
 ۱۳۔اجتہادی مسائل میں مجتہد اجتہاد کرے تو اس میں صواب پر دو اجر اور خطاء پر بھی ایک اجر ملے گا ، تو یہ فرمان نبوی صلی الله علیہ وسلم ہے ،(بخاری، بَاب أَجْرِ الْحَاكِمِ إِذَا اجْتَهَدَ فَأَصَابَ أَوْ أَخْطَأَ) مگر اہلحدیث کا کہنا ہے کہ یہ رائے اور اجتہاد کار شیطان ہے ، یہ کس حدیث میں ہے؟
۱۴۔روز اول سے آج تک یہی معمول رہا ہے کہ عامی کو جو مسئلہ پوچھنا ہو، وہ عالم سے پوچھا ، عالم نے حکم بتایا ، سائل نے مانا اور کاربند ہوا ۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے آج تک ، حکم بتاتے وقت علماء نے کبھی عوام کو دلیل تفصیلی اس طرح بیان نہیں کی کہ اس کو خوب ذہن نشین ہوجائے کہ یہ حکم ثابت صحیح ، واضح اور صریح غیر معارض اور غیر منسوخ ہے نہ کبھی عامی نے ایسی دلیل تفصیلی کا مطالبہ کیا ، یہی تقلید ہے اور کتب حدیث مثلاً:
کتاب الآثار ، موطا ، عبدالرزاق ، ابن ابی شیبہ اور دیگر کتب حدیث کےتراجم و ابواب میں یہ آفتاب نصف النہار کی طرح ثابت ہے ۔ ہزارہا فتاوی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین کرام رحمہ اللہ کے کتب حدیث میں اورلاکھوں فتاوی فقہاء کے کتب فقہ و فتاوی میں بھرے پڑے ہیں جن میں نہ مفتی نے دلیل تفصیلی بیان کی نہ مستفتی نے دلیل تفصیلی کا مطالبہ کیا نہ محدثین نے ایسے فتاوی کو مردود قرار دے کر کتابوں سے خارج کیا تو غیرمقلدین کے نزدیک دور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے لے کر آج تک کے سب عامی مشرک ہوئے اور تمام علماء امت مشرک گر ہوئے؟ کہاں ہے خیرالقرون اور کون ہے خیرالامت؟
 ۱۵۔آپ حضرات ائمہ لغت کی تقلید کرتے ہیں ، ائمہ صرف ، ائمہ نحو اورائمہ اصول کی تقلید کرتے ہیں ۔ راویوں کو ضعیف اور ثقہ کہتے ہیں تو علماء اسماءالرجال کی تقلید کرتے ہیں ۔ راویوں کی پیدائش ، رہائش ، موت میں مؤرخین کی تقلید کرتے ہیں ۔ حدیث کے ضعیف و صحیح ہونے میں محدثین کی تقلید کرتے ہیں ، یہ سب تقلیدیں کرتے ہیں کس کے حکم سے ؟ کیا خدا و رسول صلی الله علیہ وسلم نے ان کی تقلید کا حکم دیا تھا ؟ اور آپ کے کوئی بڑے بزرگ فرماگئے تھے کہ بیٹا سب کی تقلید کرنا بس ائمہ اربعہ میں سے کسی کی تقلید نہ کرنا ؟
 ۱۶۔آپ حضرات کی تقریر و تحریر سے واضح ہے کہ ائمہ اربعہ کو تو دین کے ٹکڑے کرنے والا کہا جاتا ہے لیکن ان کے مقلدین جیسے ابن حجر رحمہ اللہ ، امام نووی رحمہ اللہ کی آپ لوگ تقلید کرتے ہیں۔ جب حضرت امام شافعی رحمہ اللہ کی تقلید شرک ہے تو ابن حجر رحمہ اللہ کی تقلید کیا ایمان ہے ؟عجیب بات حجر پرستی شرک ہو مگر ابن حجر رحمہ اللہ پرستی توحید ، مشرکین کا بھی کچھ ایسا ہی طرز تھاکہ رب الارباب ذی العرش کو چھوڑ کر اس کے بندوں کی بندگی کرتے تھے۔
 ۱۷۔جیسا اہل بدعت کا طریق ہے کہ اپنی ہر ادا کو بدعت حسنہ کہتے ہیں اور دوسروں کی ہر نیکی کو شان رسالت کی گستاخی کا نام دیتے ہیں،اسی طرح آپ بھی اپنی دلیل کو تین بار پورے زور سے صحیح،صحیح ، صحیح کہتے ہیں اور مخالف جتنی احادیث پڑھے پوری طاقت سے ان کو ضعیف، ضعیف، ضعیف کہا جاتا ہے اور جو آپ کے فیصلے کو نہ مانے اسے خدا کا منکر اور نبی صلی الله علیہ وسلم کا دشمن کہا جاتا ہے ، آپ نے کب سے منصب رسالت سنبھالا کہ آپ کے فیصلوں کا منکر، منکر رسول صلی الله علیہ وسلم قرارپایا ؟
 ۱۸۔تاریخ اسلام اس پر شاہد عدل ہے کہ عوام تو کجا علماء بھی خیرالقرون کے بعد اجتہاد کی وادی میں قدم رکھتے ہوئے ڈرتے تھے اسی لئے علماء خواہ مفسرین ہوں یا محدثین ، قاضی ہوں یا مفتی ، فقہاء ہوں یا مؤرخین ،سلاطین ہوں یا وزراء ان سب کے حالات میں چار ہی قسم کی کتابیں ملتی ہیں ۔طبقات حنفیہ ، طبقات شافعیہ ، طبقات مالکیہ ،طبقات حنابلہ ۔ طبقات غیرمقلدین نامی کوئی کتاب علماء کے حالات میں نہیں لکھی گئی۔
 ۱۹۔دعوی تو یہ کرتا ہے کہ خدا اور رسول صلی الله علیہ وسلم کے سوا کسی کی بات حجت نہیں لیکن چند معدلوں اور جارحوں کو درمیان میں کھڑا کر رکھا ہے کہ ان کے قول کو نہ صرف یہ کہ قرآن و حدیث کے برابر بلکہ قرآن و سنت پر حاکم بنادیا ہے ، وہ‎ ‎شریک فی الالوہیت نہ ہوں تو شریک فی الرسالت ضرور ہیں بلکہ مصداق اتخذوا احبارهم و رهبانهم اربابا من دون الله کا ہیں۔
 ۲۰۔آج کل سوفیصد مسلمان ایسے ہیں جو اس لئے مسلمان ہیں کہ مسلمانوں کے گھر پیدا ہوئے ، وہ کسی غیر مسلم کے سامنے اسلام کی صداقت کودلائل سے بیان نہیں کرسکتے خود اسلام کو بلامطالبہ دلیل تسلیم کیا ہے ،یہ لوگ مسلمان ہیں یا کافر ؟ اگر ان پر رحم فرماکر ان کو مسلمان کہا جائےتو فرمایئے کہ جب ایمانیات میں تقلید جائز ہے تو فروعات میں کیسے کفر ہوگی ؟
 ۲۱۔اگر کوئی کافر بلامطالبہ دلیل مسلمان ہوجائے تو اس کو مسلمان مانا جائے گا یا وہ ڈبل کافر ہوجائے گا ۔ ایک کفر پہلے تھا ایک کفر تقلیدی ہوگیا ؟
 ۲۲۔معاذاللہ : اگر کوئی مسلمان بلامطالبہ دلیل مرتد ہوجائے تو اس کومرتد مانا جائے گا یا مسلمان ؟
 ۲۳۔آج کل سو فیصد غیر مقلد نمازی بھی ، نماز کے تمام جزئیات کے دلائل تفصیلیہ سے ناواقف ہیں ، ان کی نماز محض اپنے مولویوں کی تقلید میں ادا ہورہی ہے۔ کیا یہ لوگ نماز پڑھ کر تقلید کی وجہ سے کافر اور مشرک ہیں یا نہیں ؟
 ۲۴۔آج کل سوفیصد عوام غیر مقلد جو قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہیں وہ نہ اعراب کے دلائل جانتے ہیں نہ اوقاف کے ، صرف اس حسن ظن پر تلاوت کرتے ہیں کہ اگرچہ ہمیں دلائل یاد نہیں مگر اس قرآن پاک کی ایک زبر ، ایک زیر بھی بغیر دلیل کے نہیں ۔ علماء کے پاس ایک ایک زبر کی دلیل موجود ہے ، اس حسن ظن پر تلاوت کرنے سے آدمی کافر اور مشرک ہوجاتا ہے یا نہیں ؟
 ۲۵۔آپ کسی غیرمقلد حاجی صاحب کو بٹھالیں ، اس سے حج کا طریقہ بالتفصیل ، بالترتیب پوچھنا شروع کردیں اور ہر جزئی مسئلہ کی دلیل تفصیلی پوچھتے جائیں وہ بے چارہ لوگوں کی دیکھا دیکھی محض تقلید حج کرکے آیا ہے تو وہ تقلیدی حج کے بعد مسلمان رہا یا کافر ہوگیا ؟
 ۲۶۔آپ کسی غیرمقلد کو جنازہ کے موقع پر پکڑلیں ، پہلے اس سے بالترتیب مفصل نمازہ جنازہ کا طریقہ لکھواکر دستخط کروالیں پھر اس سے پوچھیں کہ اس میں فرائض کتنے ہیں ، سنتیں کتنی ہیں ؟ وہ بغیر کسی کی تقلید کے ہرگزنہیں بتاسکے گا۔
پھر اس سے پوچھیں کہ آپ پہلی تکبیر تحریمہ کے بعد ثناء ، تعوذ ، تسمیہ ، فاتحہ ، آمین ، سورۃ پڑھتے ہیں ، یہ ساتوں چیزیں بالترتیب جنازہ کی حدیث میں دکھلادیں ؟ وہ ہرگز نہ دکھاسکے گا ۔
 پھر اس سے کہیں کہ دوسری تکبیر کے بعد درود ابراہیمی اسں طرح کہ امام بلند آواز سے پڑھے اور مقتدی آہستہ آواز سے اس کی دلیل قرآن یا حدیث سے دکھائیں ، وہ ہرگز نہ دکھاسکے گا ۔
 پھر پوچھیں کہ تیسری تکبیر کے بعد دس گیارہ دعائیں امام بلند آوازسے پڑھے اور مقتدی آمین آمین کہتے رہیں ، اس کی صریح حدیث دکھاؤ ؟
 پھر یہ چوتھی تکبیر کے بعد امام بلند آواز سے اور مقتدی آہستہ آواز سے سلام پھیریں ، اسکی دلیل لاؤ ؟ وہ ہرگز نہ لاسکے گا ۔ جب تقلیدی عمل ان کے نزدیک باطل ہے تو گویا یہ بلاجنازہ اپنی میت کو قبر میں پھینک آئے۔ یعنی جس کا انتقال ہوا ہے اسکی میت ۔
  ۲۷۔آج اسماءالرجال کی کتابیں دو قسم کی ہیں : ایک وہ جن کو منقح سمجھا جاتا ہے جیسے تقریب التہذیب ، تہذیب التہذیب ، تذکرۃ الحفاظ ، میزان الاعتدال ، خلاصہ تہذیب الکمال ، ان میں نہ جارح تک کوئی سند نہ جرح کی کوئی واضح دلیل ، ان کتابوں پر اعتماد تقلید در تقلید ہے۔
دوسری قسم کی کتابیں غیر منقح ہیں جن میں ہر قسم کی رطب و یابس باتیں اسانید سے مذکور ہیں لیکن اسانید کے بعض راوی ایسے ہیں جنکے حالات نامعلوم ہیں تو ایسی کتابوں پر بھی اعتماد کرنا محض تقلید ہی تقلید ہوگا۔
۲۸۔دنیا میں سب سے پہلا گناہ ترک تقلید ہی ہوا ہے ۔ اللہ تعالی نےحضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کا حکم دیا ، یہ حکم تھا اس کے ساتھ کوئی دلیل نہ تھی ۔ فرشتے حکم سنتے ہی بلامطالبہ دلیل سجدے میں گرگئے ۔ یہی تسلیم القول بلادلیل ہے اور تقلید کا ہار گلے میں پہن لیا۔ مگر شیطان نےاس بلادلیل حکم کو تسلیم نہ کیا اور تقلید کے ہار پر لعنت کے طوق کوترجیح دی۔
خلفائے راشدین اور تقلید
۲۹۔حضرت صدیق اکبر رضی الله عنہ نے جب جمع قرآن کا حکم دیاتولوگوں نے عرض کیا آپ وہ کام کیوں کرتے ہیں جو حضور صلی الله علیہ وسلم نے نہیں کیا ۔ حضرت صدیق اکبر رضی الله عنہ نے صرف یہ فرمایا کہ الله کی قسم یہ اچھائی ہے کوئی آیت یا حدیث نہ پڑھی ۔ سب صحابہ نے اسے بلاطلب دلیل تسلیم فرمالیا : بخاری
 ۳۰۔حضرت صدیق اکبر رضی الله عنہ کی بیعت کے وقت حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ نے یہ قیاس فرمایا کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے حضرت صدیق اکبر رضی الله عنہ کو نماز میں ہم سب کا امام بنادیا تھا ، اسی پرقیاس کرکے ہم احکام سلطنت میں بھی آپ کو آگے کرتے ہیں ، سب صحابہ کرام رضی الله عنہم نے اس قیاس کی تقلید میں بیعت کی ، کیا غیرمقلدین کے نزدیک اس قیاس کی وجہ سے معاذاللہ حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ شیطان بنے ؟ ہرگز نہیں۔ شیطان تو ان کے سایہ سے بھاگتا تھا اور کیا معاذاللہ سب صحابہ کرام رضی الله عنہم مشرک ہوگئے ؟ ہرگز نہیں ۔ ان کو مشرک کہنا اپنے ایمان کو برباد کرنا ہے ۔
 ۳۱۔حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ نے اپنے منشور کا اعلان یوں فرمایا کہ آپ پہلے مسئلہ کتاب اللہ سے لیتے اگر نہ ملتا تو سنت سے لیتے اگر کسی مسئلہ کا نشان نہ قرآن میں ملتا نہ سنت میں تو اجتہاد کرتے اور فرماتے هذا رأیی یہ میری رائے ہے ۔ اگر صواب ہو تو الله کی طرف سے ہے اگر خطا ہو تو میری طرف سے ہے اور میں الله سے بخشش طلب کرتا ہوں ۔
 (جامع بیان العلم ج۲ ص ۵۱ )
افسوس ہر جاہل غیر مقلد یہ دعوی کرتا ہے کہ میں سب مسائل صاف طور پر قرآن و حدیث میں دکھا سکتا ہوں گویا اس کا علم قرآن و حدیث کے بارے میں حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ سے زیادہ ہے ۔ اس روایت سے معلوم ہوا کہ جب حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ رائے سے مسئلہ بتاتےتو سب لوگ ان کی رائے کو مانتے، یہی تقلید ہے۔ معلوم ہوا دور صدیقی رضی الله عنہ میں کوئی غیر مقلد نہ تھا جو ابوبکر رضی الله عنہ کی رائےکو کار ابلیس کہتا اور اس رائے کی پیروی کرنے والوں کو مشرک کہتا۔
۳۲۔حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ نے حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ کو خلیفہ نامزد کردیا ، اس حکم نامہ میں نہ آیت سے دلیل بیان کی نہ حدیث سے ، محض اپنی رائے سے ایسا کیا ۔ تمام صحابہ کرام رضی الله عنہم نے آپ کی رائے  کی تقلید میں حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ کو خلیفہ تسلیم کرلیا ، یہی تسلیم القول بلادلیل تقلید ہے ۔
 ۳۳۔حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ نے خلیفہ بنتے ہی اپنا منشور تمام مجتہد قاضیوں کو یہ بھیج دیا کہ اگر کتاب الله اور سنت رسول الله صلی الله علیہ وسلم میں مسئلہ نہ ملے تو اجتہاد و رائے سے فیصلہ کرو۔(جامع بیان العلم ج۲ ص ۵۶)مجتہدین کے فیصلوں کا ماننا بھی تقلید ہے۔
۳۴۔حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ کے زمانہ میں صحابہ کرام رضی الله عنہم ان کے حکم سے سارا مہینہ مسجد میں باجماعت تراویح پڑھنے لگے جو بظاہر حضور صلی الله علیہ وسلم کے حکم مبارک کہ فرض کے بعد باقی نمازیں گھر پڑھا کرو (بخاری)کے خلاف تھا جبکہ حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ نے کوئی دلیل بیان نہ فرمائی تھی.
۳۵۔  جو لوگ دور فاروقی ، عثمانی ، علوی میں بیس ۲۰ تراویح پڑھتے تھے آپ کے نزدیک وہ عامل بہ سنت تھے یا کسی اجتہاد کے مقلد۔
 ۳۶۔ حضرت فاروق اعظم رضی الله عنہ نے  تین طلاق کو تین قرار دینے کا اعلان فرمایا تو سب نے اس کو تسلیم کرلیا ، حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ نے اس کے ساتھ نہ کوئی آیت بطور دلیل پیش فرمائی نہ حدیث ، یہ تسلیم القول بلادلیل تقلید ہی ہے یا کیا؟
 ۳۷۔ حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ کے بعد حضرت عثمان رضی الله عنہ کے ہاتھ پر بیعت اس شرط پر ہوئی کہ وہ حضرت ابوبکر و حضرت عمر رضی الله عنہم کے طریقہ کی پیروی کریں گے ۔ کیا اس اقرار سے جو بیعت ہوئی وہ خلافت غیر مقلدوں کے اصول پر صحیح ہے یا غلط ؟
 ۳۸۔ حضرت عثمان رضی الله عنہ کے زمانہ میں جمعہ کی اذان کا جو اضافہ ہوا اس کا اعلان کرتے وقت حضرت عثمان رضی الله عنہ نے کوئی آیت یا حدیث بطور دلیل بیان فرمائی تھی یا سب صحابہ کرام رضی الله عنہم نے بلامطالبہ دلیل آپ کے حکم کو تسلیم کرلیا جو تقلید ہے ؟
۳۹۔  آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے الله تعالی سے دعائیں مانگ مانگ کر قرآن پاک کی ساتوں لغات پر تلاوت کے اجازت لی تھی مگر حضرت عثمان رضی الله عنہ نے صحابہ کرام رضی الله عنہم کے مشورہ سے لغت قریش کے علاوہ باقی چھ ۶ لغات پر قرآن پاک کی تلاوت سے منع فرمادیا، اس پر کوئی آیت یا حدیث پیش نہ فرمائی، امت کو اختلاف سے بچانے کی مصلحت تھی ، سب لوگوں نے آپ کے اس فرمان کو بلامطالبہ دلیل تسلیم کرلیا یہی تقلید ہے۔
۴۰۔  آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی الله عنہم کی تعداد ایک لاکھ سے متجاوز تھی جن کی مادری زبان بھی عربی تھی مگر بقول حضرت شاو ولی اللہ رحمہ اللہ کہ حضرت صدیق اکبر رضی الله عنہ کے بعد حضرت عمر رضی الله عنہ ، حضرت عثمان رضی الله عنہ ، حضرت علی رضی الله عنہ اور حضرت عبدالله بن مسعود رضی الله عنہ و ابن عباس رضی الله عنہ کامیاب مجتہد تھے اور حضرت عبدالله بن عمر رضی الله عنہ اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا جزوی طور پر مجتہد تھے ،حجۃ اللہ بالغہ اور قرۃالعینین فی تفصیل الشیخین میں فرماتے ہیں ،صحابہ دو گروه بودند مجتہد و مقلد،معلوم ہوا کہ دور صحابہ کرام رضی الله عنہم میں ایک بھی غیر مقلد نہ تھا۔
قیاس کاانکار کرنے والوں سےچند سوالات
۴۱۔ سدھائے ہوئے کتے کا شکار حلال ہے : یہ قرآن و حدیث میں ہے ، اگر کوئی شخص شیر ، چیتے ، بھیڑیئے ، بندر ، باز ، شکرے وغیرہ کو تعلیم دے لے تو ان کا شکار حلال ہوگا یا حرام ؟ قیاس سے یا کسی نص سے ؟
 ۴۲۔ بھینس کو عربی میں : جاموس: کہتے ہیں۔ یہ لفظ نہ قرآن میں ہے نہ حدیث میں اب بھینس کا گوشت ، دودھ ، دہی ، گھی ، لسی ، پنیر حلال ہے یا حرام ؟ گائے پر قیاس کرکے یا کسی نص سے تو وہ پیش کریں ؟
 ۴۳۔ چوہا گھی میں گر کر مرجائے اس کا حکم حدیث میں موجود ہے ، اگر بلی کا بچہ ، خنزیر کا بچہ ، کتیا کا بچہ ، چھپکلی ، سانپ ، بچھو ، چیونٹی ، بھڑ ، جھینگر وغیرہ گھی میں گر کر مرجائیں تو ان کا حکم قیاس سے معلوم ہوگا یا کسی نص سے ؟
 ۴۴۔ اگر تیل ، دہی ، دودھ ، شربت ، سرکہ ، شیرے، لسی، عرق وغیرہ میں چوہا گر کر مرجائے تو اس کا حکم کسی صریح نص میں موجود ہے یا گھی پر قیاس سے معلوم کیا جائے گا؟
 ۴۵۔ کیا بیع العنب بالزبیب جائز ہے ؟ کسی نص سے یا بیع الرطب بالتمر پرقیاس کرکے ؟
۴۶۔  زید نے زینب کو تین ۳ شرعی طلاقیں دیں ، اس نے بکر سے نکاح کیا ، پھر بکر نے اسے طلاق دے دی ، اب زینب عدت گزار کر زید سے نکاح کرسکتی ہے ؟ یہ مسئلہ قرآن و حدیث میں ہے ، لیکن اگر بکر نے طلاق نہیں دی زینب نے خلع کرالی یا بذریعہ عدالت نکاح فسخ کرایا تو اب عدت گزار کر زید سے نکاح کرسکتی ہے یا نہیں ؟ اور اس کا ثبوت کسی صریح نص سے ہے یا محض طلاق پرقیاس سے؟
۴۷۔  آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا سونے ، چاندی کے برتنوں میں کھانا حرام ہے ، اب سونے چاندی کے برتنوں میں پانی لے کر وضو یا غسل کرنا ، اس سے تیل لگانا ، اس کے قلم سے لکھنا ، اس کی سلائی سے سرمہ لگانا ، اس کی عطر دانی سے عطر چھڑکنا حلال ہے یا حرام اور دلیل نص صریح ہے یا محض قیاس ؟
 ۴۸۔ چاندی سونے کے ورق کھانا جائز ہے ہیں یا نہیں ؟ دلیل کوئی نص ہے یا کوئی قیاس ؟
 ۴۹۔ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے پتھروں سے استنجاء کا حکم فرمایا ۔ اب کوئی شخص کپڑے ، ٹشو پیپر ، روئی ، اون ، گھاس ، درخت کے پتوں سے استنجاء کرے تو پاک سمجھا جائے گا یا نہیں ؟ دلیل کوئی صریح نص ہے یا پتھر پر قیاس ؟
 ۵۰۔ لونڈی زنا کا ارتکاب کرے تو اس پر نصف حد ہے ، زانی غلام پر بھی نصف حد ہوگی تو کسی نص سے یا قیاس سے ؟
 ۵۱۔ غلام مرد ایک وقت میں چار عورتوں سے نکاح کرسکتا ہے ، آزاد مرد پر قیاس کرکے یا صرف دو عورتوں سے حد پر قیاس کرکے ، حضرت عمر رضی الله عنہ کے زمانہ میں دوسرے قول پر اجماع ہوگیا ۔ آپ نص کا حکم پیش کریں ؟
 ۵۲۔ غلام تین طلاقوں کا اختیار رکھتا ہے یا دو کا یا ڈیڑھ کا ، جواب نص سے دیں نہ کہ قیاس سے ؟
۵۳۔  لونڈی کی طلاق کی عدت تین حیض ہے یا دو حیض یا ڈیڑھ حیض ، جواب نص صریح سے دیں ، قیاس نہ فرمائیں ؟
 ۵۴۔ جنبی کو غسل کیلئے پانی نہ ملے تو حدیث میں تیمم کا حکم ہے ، حائضہ یا نفاس والی کو پاک ہونے کےلئے غسل کیلئے پانی نہ ملے تو اس کو بھی تیمم جائز ہے ؟ کسی صریح نص سے یا جنبی پر قیاس کرکے ؟
۵۵۔  قرآن پاک میں ہے کہ اگر سفر میں کاتب نہ ہو تو رہن رکھ لو ، گھر میں رہن رکھنا جائز ہے یا نہیں ؟ کس نص سے ؟
 اگر سفر میں کاتب بھی موجود ہو تو بھی رہن رکھنا جائز ہوگا یا نہیں؟
 جواب صریح نص سے دیں ؟
 ۵۶۔ الله تعالی فرماتے ہیں کہ پاخانہ سے فارغ ہوکر وضو کیلئے پانی نہ ملے تو تیمم کرلو ، اگر پیشاب یا خروج ریح یا خروج مذی یا قے یا خون بہنے سے یا آپ کے مذہب پر مس ذکر یا عورت کو چھونے سے وضو ٹوٹ جائے تو تیمم کا جواز نص سے ہے یا قیاس سے ؟
 ۵۷۔ اگر پانی موجود ہے مگر پیاس کا خوف ہے یا آٹا گودھنے کو پانی نہ بچے گا یا پانی کے استعمال بیمار ہونے یا بیماری بڑھنے کا خطرہ ہو تو تیمم جائز ہے یا نہیں اور دلیل نص صریح ہے یا کوئی قیاس ؟
 ۵۸۔ اگر پینے کی چیز میں مکھی گر کر مرجائے تو اس کو نکالنے کا حکم حدیث میں ہے ۔ اگر مکھی ، مچھر ، چیونٹی ، بھڑ ، جگنو وغیرہ دودھ ، شوربے، سرکے ، عرق میں گرجائیں تو ان کو کسی نص سے نکالیں گے یا قیاس سے ؟
  ۵۹۔ الله تعالی نے قرض کے متعلق نصاب شہادت کے بارے میں یہ بیان فرمایا کہ دو مرد یا ایک مرد دو عورتیں ، اب سوال یہ ہے کہ میراث ، وصیت ، امانت ، غضب اور دیگر مالی معاملات میں بھی نصاب شہادت یہی ہوگا ؟ تو نص سے یا قیاس سے ؟
 ۶۰۔ کتے کے جھوٹے کا ناپاک ہونا تو حدیث میں ہے ۔ خنزیر ، شیر ، چیتا ، بھیڑیا ، بندر ، گینڈا ، گیڈر ، لومڑی ، وغیرہ درندوں کے جھوٹے کا حکم اس پر قیاس کرلیا جائے گا یا ہر ایک کیلئے نام بنام صریح نص پیش کرسکتے ہیں ؟
 ۶۱۔ مندرجہ بالا جانوروں کے جھوٹے کے حکم کے علاوہ ان جانوروں کے پیشاب ، پاخانے ، قے ، خون ، پسینے وغیرہ کے پاک یا ناپاک ہونے کی نام بنام صریح نصوص موجود ہیں یا یہ کام قیاس سے ہی لیا جائے گا ؟
۶۲۔ حضرات گرامی ! نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی حدیثوں پر عمل کرنے کا داعی فرقہ اہلحدیث تو خود قیاس پر عمل کرکے مشرک بنا بیٹھا ہے کیونکہ ان کے ہاں قیاس پر عمل کرنا شرک ہے اور ہم جو حنفی ہیں ہمیں یہ قیاس پر عمل کرنے سے مشرک بتلاتے ہیں ۔ بھلا یہ کہاں کا انصاف ہے کہ غیرمقلد اگر قیاس پر عمل کریں تو اہلحدیث کہلائیں ۔ فیصلہ اور انصاف جوش میں نہیں ، ہوش میں کریں ۔
 ۶۳۔ قرآن پاک میں پردہ کی آیت میں حصر کے ساتھ ان کا ذکر ہے جن سے پردہ نہیں ان کے علاوہ سب سے پردہ ہے مگر ان میں ماموں ، چچا ، تایا کا ذکر نہیں تو کیا ان تینوں سے پردہ فرض ہوگا یا اس وجہ سے کہ جن سے پردہ نہیں وہ محرم ہیں یعنی ان سے ہمیشہ کے لئے نکاح حرام ہے اور یہ وجہ چچا ،ماموں ، تایا میں بھی موجود ہے اس لئے اس حصر کو توڑ دیا جائے گا اور ان تینوں سے بھی پردہ فرض نہ ہوگا؟
 ۶۴۔ قرآن پاک میں ماں باپ کے سامنے(اف) کہنے سے منع کیا گیا اب کوئی ماں باپ کو مارے ، پیٹے یا ان کے منہ پر تھوکے تو اس آیت کی دلالت سے وہ بھی حرام ہوگا یا نہیں ؟ کیا آپ دلالۃالنص کو مانتے ہیں یا نہیں ؟
۶۵۔ اگر آپ دلالۃالنص ، اشارۃالنص ، اقتضاءالنص کو مانتے ہیں کو ان کی جامع مانع تعریف بیان فرمائیں ؟
 ۶۶۔ اگر آپ ایسے مسائل میں قیاس کو مانتے ہیں ، تو اپنے آپ کو اہل قیاس کیوں نہیں کہتے ، اہلحدیث کیوں کہتے ہو ؟
 ۶۷۔ حنفی ، شافعی ، مالکی ، حنبلی بوقت ضرورت قیاس کو مانتے ہیں ان سب کا اصول فقہ موجود ہے ۔ آپ اگر قیاس کو مانتے ہیں تو اپنی جماعت کی مسلمہ کتب اصول فقہ کی فہرست دیں ۔ یہ کب لکھی گئیں اور ان میں سے کون کون سی آپ کے ہاں داخل نصاب ہیں ؟
 ۶۸۔ مذاہب اربعہ قیاس کو مانتے ہیں تو ان سب کی فقہ کی کتابیں موجود ہیں جو داخل نصاب اور مدار فتوی ہیں ، آپ اگر قیاس کو مانتے ہیں تو اپنی مسلمہ کتب فقہ جو داخل نصاب ہوں اور مدار فتوی ہوں ان کی فہرست بیان فرمائیں ؟
۶۹۔  آپ کے ہاں مجتہد کی شرائط وہی ہیں جو مذاہب اربعہ میں مسلم ہیں یا کچھ کم زیادہ ہیں تو ارشاد فرمائیں ؟
 ۷۰۔ کیا آپ کے ہر شخص میں شرائط اجتہاد کامل طور پر موجود ہیں یا بعض میں ؟
 ۷۱۔ ائمہ اربعہ کا مجتہد ہونا دلیل شرعی یعنی اجماع امت سے ثابت ہے ، آپ کے ہاں کون کون سے مجتہد ہوئے ہیں جن کو اہل السنۃ کی تمام جماعتوں نے اجتہاد کا جامع تسلیم کیا ہو ، ان کی تاریخ پیدائش وغیرہ بیان فرمائیں ؟
۷۲۔  آپ کے قیاسات قطعی ہوتے ہیں یا ظنی ، آپ کے ہاں قطعی اور ظنی کی تعریف اور ان کا حکم کیا ہے ، باحوالہ بیان فرمائیں ۔
۷۳۔  آپ کے مجتہدین میں اختلاف بھی ہوتا ہے یا نہیں ؟ اگر ہوتا ہے تو دونوں حق پر سمجھے جاتے ہیں یا ایک کو حق دوسرے کو باطل کہا جاتا ہے ؟
 ۷۴۔ اس اختلاف کی بنیاد ان کے اختلافی اصول ہیں تو وہ کس کتاب میں ہیں یا اختلاف محض اتباع ہواء سے ہوتا ہے؟
۷۵۔ نواب صدیق حسن صاحب کی کتاب الروضۃ الندیہ ، نواب وحید الزماں کی نزل الابرار من فقہ النبی المختار ، کنز الحقائق من فقہ خیر الخلائق ، ہدیۃ المہدی من فقہ المحمدی ، میر نور الحسن کی کتاب عرف الجادی من جنان ہدی الہادی ، حسن علی کی کتاب النہج المقبول من شرائع الرسول ، ابوالحسن کی فقہ محمدیہ کلاں جو سب دور برطانیہ میں لکھی گئیں ، ان میں سے ایک بھی کسی اسلامی حکومت میں نہیں لکھی گئی اور نہ ان کو فقہ نبوی قرار دیا گیا ، ان کتابوں کا ہر ہر مسئلہ نبی معصوم علیہ السلام سے ثابت ہے یا نبی علیہ السلام کے نام سے محض ان پر جھوٹ باندھے گئے ہیں ؟ کیا اہلحدیث ہونے کیلئے نبی پاک صلی الله علیہ وسلم پر جھوٹ بولنا بھی ضروری ہے ؟
۷۶۔  بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم ان کتابوں کو نہیں مانتے ، اس کا کیا مطلب ہے کہ ان کتابوں کا وجود ہی نہیں ، یا ان کے لکھنے والے اہلحدیث نہیں ؟ یا انہوں نے اہلحدیث ہوکر قرآن و حدیث کی طرف جھوٹے مسئلے منسوب کئے ؟ تو ان جھوٹ بولنے والوں کے رد میں آپ کی جماعت کی طرف سے کون کون سی کتابیں لکھی گئیں ؟ اور ان جھوٹی کتابوں کے مقابلہ میں سچی کتابیں لکھنا ضروری تھا ، وہ کتابیں کون کون سی ہیں جن میں دین کے مکمل مسائل ہوں اور ان کو آپ کی پوری جماعت مانتی ہو۔
۷۷۔  کیا یہ بات سچی نہیں کہ اہلحدیث ، حدیث کا نام لے کر اس قسم کی جھوٹی کتابیں لکھتے ہیں جس طرح اہل قرآن ، قرآن کا نام لے کر دین میں جھوٹ بولتے ہیں ۔ آپ لوگ دین میں جب جھوٹ بولنا ہوتا ہے تو حدیث کا نام لے کر بولتے ہیں ۔
۷۸۔  بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم صرف حدیث کو مانتے ہیں ، ہم اہلحدیث ہیں تو یہ ایک جھوٹ ہے جیسے اہل قرآن کہتے ہیں کہ ہم صرف قرآن کو مانتے ہیں لیکن ایک بھی شخص نہیں جو اپنی زندگی کے مکمل مسائل قرآن کے مطابق ثابت کرسکے ۔ ایسے ہی ہمیں آج تک ایک اہلحدیث بھی ایسا نہیں ملا جو زندگی کے تمام مسائل تو کیا صرف نماز کے تمام جزئی مسائل حدیث سے دکھاسکتا ہو ۔
 ۷۹۔ اگر آپ اہلحدیث ہیں تو آپ کی حدیث کی کون سی کتاب ہے جس کا پہلاباب مجتہدین کو ابلیس ‏‎ ‎ثابت کرنے کے لئے باندھا گیا ہو اور احادیث سے ثابت بھی کیا ہو ۔ دوسرا باب تقلید مجتہد کو شرک ثابت کرنے کا باندھا ہو اور صریح آیات و احادیث سے ثابت کر دکھایا ہو کہ غیر مجتہدکا اجتہادی مسائل میں مجتہد کی تقلید کرنا شرک ہے ؟
۸۰۔  بعض لوگ ، عوام کو دھوکہ دیتے ہیں کہ ہم چونکہ اہلحدیث ہیں اس لئے حدیث کی ساری کتابیں ہماری ہیں ، یہ محض دعوی ہے دلیل نہیں جیسے منکرین حدیث کہتے ہیں ہم چونکہ اہل قرآن ہیں ، اس لئے قرآن ہمارا ہے تو کیا اہلحدیث ان کا یہ دعوی سن کر قرآن سے دستبردار ہوگئے ہیں ؟؟ مسعودی فرقہ کہتا ہے :ہم جماعت المسلمین ہیں اسلام ہمارا ہے ، ہمارے سوا سب غیرمسلم ہیں تو کیا اہلحدیث ان کا یہ دعوی سن کر اسلام سے دستبردار ہوچکے ہیں ؟؟ شیعہ کہتے ہیں : ہم محبان اہل بیت ہیں ، اہل بیت صرف ہمارے ہیں ، ہمارے علاوہ سب اہل بیت کے منکر ہیں ، تو کیا ان کا یہ دعوی سن کر اہلحدیث اہل بیت سے دستبردار ہوگئے ہیں ؟؟
 ۸۱۔ جس طرح اہل قرآن کا عمل بالقرآن صرف اتنا سامنے آیا کہ محدثین کو گالیاں دینا اور حدیث کے خلاف پروپیگنڈہ کرنا اور شیعہ سے حب اہل بیت کا یہی ثبوت ملتا ہے کہ صحابہ کرام کو گالیاں دے لیں ۔ اسی طرح موجودہ د"اہلحدیثد" کا عمل بالحدیث اس سے زیادہ نہیں کہ فقہاء کو گالیاں دیں ، فقہ کے خلاف بدگمانیاں پھیلائیں ، بدزبانیاں کریں ۔ اس پر سینکڑوں اشتہارات اور رسالے ہم پیش کرسکتے ہیں بلکہ اس بدزبانی میں یہ لوگ اہل قرآن اور شیعہ سے سبقت لے گئے ہیں ۔
۸۲۔  اگر آپ کے نزدیک مجتہد اور اجتہاد و قیاس کی کوئی شرط نہیں ، ہر وہ شخص جو مدعی اسلام ہو اجتہاد کرسکتا ہے اور اس کے اجتہادات کو تسلیم کرنا لازمی ہے تو مرزا قادیانی ملعون ، مودودی ، اسلم جیراجپوری ، غلام احمد پرویز ، عنایت اللہ مشرقی اور ان کے وہ مسائل جو قرآن و حدیث کے نام پر جو انہوں نے پیش کئے ہیں وہ سب آپ کو مسلم ہیں یا نہیں ؟ اگر مسلم نہیں تو کیوں ، اس لئے آپ قرآن و حدیث کو نہیں مانتے یا ان کے فہم کو غلط کہتے ہیں تو فہم کے صحیح و غلط ہونے کا کیا معیار ہے ؟
 ۸۳۔ اور اگر دعوی اسلام کی بھی ضرورت نہیں تو پادری فانڈر ، گولڈ سیک ، صفدر علی ، عماالدیں ، رام چندر ، سوامی دیانند ، پنڈت شردھانند نے بھی اپنی کتابوں میں قرآن و حدیث کے نام سے بہت مسائل لکھے ہیں تو وہ سب آپ کو تسلیم ہیں یا نہیں ، عدم تسلیم کی وجہ بتائیں کہ اصل قرآن ، حدیث کا آپ کو انکار ہے یا ان کے فہم کو غلط سمجھتے ہیں ؟
۸۴۔  جب آپ کے نزدیک مجتہدین کا فہم قرآن و حدیث بھی غلط ، مرزا قادیانی ملعون وغیرہم کا فہم قرآن و حدیث بھی غلط ، سوامی دیانند وغیرہ کا فہم قرآن و حدیث بھی غلط تو آپ کے ہر جاہل کا فہم قرآن و حدیث جو ان سب کےہاں غلط ہے اس کی صحت کا کیا معیار ہے ؟
 ۸۵۔ کیا قرآن و حدیث میں فقہاء ، اہل استنباط ، اہل ذکر اور مجتہدین کے فہم کو ماننے کا حکم ہے؟ اگر ہے تو اس کو تسلیم فرمایئے ، رہا یہ کہ فقیہ کس کو مانا جائے ہر مدعی کو یا صرف اس کو جس کا فقیہ ہونا دلیل شرعی اجماع امت سے ثابت ہو ؟
۸۶۔  آپ کے نزدیک اوامر شرعیہ میں فرض ، واجب ، سنت مؤکدہ ، مستحب اور مباح کی درجہ بندی ہے یا نہیں ؟ اگر ہے تو ان کی جامع مانع تعریف ، ان کے منکر اور تارک کا حکم کیا ہے اور شریعت میں ہر ایک کے ثبوت کا کیا طریقہ ہے ؟
 ۸۷۔ آپ کے نزدیک منہیات شرعیہ میں حرام ، مکروہ تحریمی ، مکروہ تنزیہی اور گناہوں میں کبیرہ اور صغیرہ کی تقسیم ہے یا نہیں ، اگر ہے تو ہر ایک کی جامع مانع تعریف ، اس کے منکر اور تارک کا حکم اور اس کے ثبوت کا شرعی طریقہ بیان فرمائیں ؟
۸۸۔  کیا کسی حدیث میں ہے کہ قیامت کو پہلے فرائض کا حساب ہوگا پھر نوافل کا ، آپ کے وہ افعال جن کو آپ نہ فرض مانتے ہیں نہ سنت نہ نفل وہ حساب کے کسی کھاتے میں پڑیں گے یا بیکار جائیں گے ؟
 ۸۹۔ حدیث کی جس قدر کتابیں آج دستیاب ہیں ان کے مؤلفین یا مجتہدین ہیں یا مقلدین جیسا کہ کتب طبقات سے ظاہر ہے ، ایک کتاب بھی کسی غیرمقلد کی تالیف نہیں بلکہ دنیا میں ایک حدیث بھی ایسی نہیں جس کے راویوں کو تاریخی شہادت سے غیرمقلد ثابت کیا جاسکے ۔ غیرمقلد اسے کہتے ہیں جو نہ شرائط اجتہاد کا جامع ہو اور نہ ہی تقلید کرے ، نااہل ہوکر دین میں رائے لگائے۔
 ۹۰۔ ائمہ مجتہدین کے‎ ‎اختلافات کی بنیاد احادیث اور صحابہ کرام کا اختلاف ہے ۔ اہل قرآن نے اس اختلاف کے بہانے سے ائمہ کرام، صحابہ کرام اور احادیث سب کو چھوڑدیا ، بس ایک مرحلہ باقی ہے کہ اختلاف قرأت کی وجہ سے قرآن کو بھی چھوڑدیں ۔ غیر مقلدین نے ائمہ کرام اور صحابہ کرام کو توچھوڑدیا لیکن احادیث اور قرآن کو نہیں چھوڑا ۔ خود اہلحدیثوں میں یہ اختلاف موجود ہے ، اس لئے اہلحدیث مسلک کو بھی چھوڑ دینا چاہئے بلکہ اہل اسلام کے اختلاف سے اسلام کو بھی سلام کردیں ؟ الغرض اگر ایسا اختلاف مذموم ہے تو جہاں جہاں اختلاف ہے سب کو چھوڑنا چاہئے یا سب کو ماننا چاہئے ؟
غیرمقلد وکیل کا بیان
 ایک غیرمقلد کا کہنا ہے کہ میں نےترمذی شریف مترجم مولانا بدیع الزماں اہلحدیث،خریدی کہ نماز ، روزہ کے تمام مسائل حدیث صحیح کے مطابق انجام دوں گا ، مگر اس کے مطالعہ سے مجھے مکمل مسائل تو نہ ملے ۔ البتہ مزید کئی غلط فہمیاں دور ہوگئیں ۔ میں یہ سمجھتا تھا کہ ناجی گروہ کا نام اہلحدیث ہے اور اہل قرآن گمراہ ہیں ، مگر ترمذی ج ۱ ص ۱۹۸ پر حدیث مل گئی کہ اے اہل قرآن وتر پڑھوجبکہ اہلحدیث کا نام مجھے حدیث میں نہیں ملا ۔
 میں سمجھتا تھا کہ ہر صحیح حدیث سب مسلمانوں کیلئے واجب العمل ہے مگر ترمذی شریف میں بےشمار مقامات پر یہ پڑھا کہ یہ حدیث صحیح ہے اور اس پر بعض کا عمل ہے اور بعض کا عمل اس کے خلاف ہے ۔
 میں یہ سمجھتا تھا کہ حدیث ضعیف واجب الرد ہے ، مگر ترمذی شریف میں بہت سی حدیثیں ایسی پڑھیں کہ امام ترمذی رحمہ الله ان کو ضعیف کہنے کے باوجود لکھتے ہیں کہ فلاں فلاں لوگوں کا عمل اس کے موافق ہے ۔
 مثلاًوضو سے پہلے بسم الله کے باب میں فرماتے ہیں کہ امام احمد رحمہ اللہ نے فرمایا اس باب میں کوئی حدیث ایسی نہیں پاتا جس کی اسناد عمدہ ہو اور کہا اسحاق نے اگر چھوڑدیا بسم اللہ کو قصداً تو پھر وضو کرے(ص ۶۰) گویا ضعیف سے فرضیت ثابت ہورہی ہے ۔
باب الاذنین من رأس میں ایک حدیث نقل کرکے فرماتے ہیں: اس حدیث کی اسناد کچھ ایسی مضبوط نہیں اور اسی پر عمل ہے اکثر اہل علم کا اصحاب اور تابعین سے کہ کان سر میں داخل ہیں اور یہی قول ہے سفیان ثوری اور ابن مبارک ، احمد اور اسحاق رحمہم اللہ عنہم کا(ص۶۳)
 اور باب رومال سے بدن پوچھنے کا بیان بعد وضو کے،میں ایک حدیث نقل کرکے فرماتے ہیں یہ حدیث غریب ہے اور اسناد اس کی ضعیف ہے اور اجازت دی ہے بعض علماء صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اور جو بعد ان کے تھے رومال رکھنے کی بعد وضو کے
۶۷)
 ص۹۴ پر حدیث نقل کی ہے کہ حائضہ قرآن سے کچھ نہ پڑھے اور اس حدیث کو ضعیف بلکہ منکر لکھا ہے ، مگر ساتھ ہی لکھا ہے یہی قول ہےاکثر اہل علم کا صحابہ کرام اور تابعین عظام میں سے اور جو بعد ان کے تھےمثل سفیان ثوری اور ابن مبارک اور امام شافعی اور امام احمد اور اسحاق کا۔
 ص۱۱۷ پر ایک حدیث کو ضعیف لکھ کر فرماتے ہیں : اسی پر عمل ہے اکثر اہل علم کا کہ جو اذان دے وہی تکبیر کہے:۔
 صفحہ ۱۴۳ پر ایک حدیث کو ضعیف کہہ کر فرماتے ہیں : اور یہی مذہب ہے اکثر اہل علم کا کہ مکروہ کہتے ہیں اقعاء کو ۔
 ص۱۶۴ پر ایک حدیث کو ضعیف کہہ کر فرماتے ہیں :: اور یہی مذہب ہے اکثر اہل علم کا ، اس کی مثالیں بہت ہیں۔
 امام عبداللہ بن مبارک فرماتے ہیں الاسناد من الدین ولو لا الاسناد لقال من شاء ماشاء (صحیح مسلم) یعنی اسناد دین کا جزء ہے ، اگر اسناد نہ ہو تو جو شخص جو چاہے کہنے لگے ۔ یہ سند کا وجوب عقلی ہے یا شرعی؟ تو اس کی دلیل شرعی کیا ہے؟
 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تحقیق کا حق ہر ہر جاہل کو ہے یا صرف اہل استنباط تحقیق کریں گے اور باقی ان کی تقلید کریں گے ؟
 امام ابن سیرین فرماتے ہیں : پہلے لوگ صحابہ کرام وغیرہ سند نہیں پوچھتے تھے، جب فتنہ واقع ہوا تو راویوں کے متعلق پوچھنے لگے تاکہ اہل السنۃ راوی کی روایت قبول کریں اور اہل بدعت کی حدیث قبول نہ کریں( مسلم) اگر سند کی تحقیق کا وجوب شرعی ہے تو پہلے کے لوگ اس واجب کے ترک سے گنہگار تھے یا نہیں اور اگر اس کا وجوب شرعی نہیں تو بعد والوں کا اسے واجب کہنا بدعت ہے یا نہیں؟
 کیا حدیث کے صحیح ہونے کیلئے راوی کا اہل السنۃ ہونا کافی ہے یا اور بھی شرائط ہیں؟ وہ کس نے کس زمانہ میں لگائیں؟
 کیا یہ صحیح ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے ۱۴۳۵ ایسے راویوں سے حدیث لی جن سے امام مسلم رحمہ اللہ نے حدیث نہیں لی اور ان میں سے ۸۰ راوی سب کے نزدیک متکلم فیہ ہیں اور امام مسلم رحمہ اللہ نے ۱۶۲۰ ایسے راویوں سے حدیث لی ہے جن سے  امام بخاری رحمہ اللہ نے حدیث نہیں لی اور ان میں سے ۱۶۰ راوی سب کے نزدیک متکلم فیہ ہیں (امعان النظر ص ۵۷ ) یہ بعض راویوں کا رد یا قبول کرنا کسی دلیل شرعی سے ہے یا محض اپنی اپنی رائے سے؟
 جب خیرالقرون میں فیصلہ ہوگیا تھا کہ اہل بدعت کی حدیث مردود ہے تو امام بخاری و امام مسلم رحمہ اللہ نے اس فیصلے کو مسترد کرکے اہل بدعت کی روایات اپنی کتابوں میں درج کرلیں ، یہ کسی دلیل شرعی سے ہوا یا محض رائے سے ؟
 وہ کون سی دلیل شرعی ہے کہ  امام بخاری رحمہ اللہ عوف الاعرابی کی سند سے حدیث لائے جس کے متعلق ابن حجر شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ کان قدریا رافضیا شیطانا یعنی تقدیر کا منکر اور شیطان رافضی تھا ۔(تہذیب ص ۱۶۷ ج ۸ ) مگر امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی سند سے حدیث نہیں لی ۔
 عبدالملک بن اعین اخبث رافضی کی سند سے حدیث لی مگر امام جعفر صادق رحمہ اللہ کی سند سے حدیث نہیں لی ۔
حریز بن عثمان ، بہز بن اسد ، عباد بن یعقوب جو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو برملا گالیاں بکتے تھے ، انکی سند سے حدیث لی اور امام شافعی رحمہ اللہ سے حدیث نہ لی ۔
 جریر بن عبدالحمید حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کو اعلانیہ گالیاں بکتا تھا اس کی روایت لی ہے مگر امام شافعی رحمہ الله کے استاد مسلم بن خالد سے حدیث نہیں لی۔
 جب اسناد دین ہے تو امام بخاری رحمہ الله نے بے سند تعلیقات اور امام ترمذی رحمہ الله نے فی الباب میں بے سند احادیث کیوں نقل فرمائیں؟
 کیا امام بخاری رحمہ الله نے ایسے راویوں سے بھی صحیح بخاری میں حدیث لی ہے جن کو خود تاریخ میں ضعیف کہا گیا ہے؟
 صحیح بخاری کو اصح الکتب بعد کتاب الله کسی دلیل شرعی سے کہا جاتا ہے یا محض ابن صلاح کی تقلید میں؟
 بخاری اور مسلم آپ کے نزدیک پوری کی پوری واجب العمل ہیں یا ان کابعض حصہ ناقابل عمل بھی ہے تو اس کی تعیین فرمائیں۔
دین پر عمل کرنے کے لئے کیا کسی امام کی پیروی کرناضروری ہے؟
غیر مقلدین (نام نہاد اہل حدیث ) کی فقہ سے ناراضگی، شدت اور گمراہی کا سبب دو غلطیاں ہیں، جن میں ان کا ضدی اور ہٹ دھرم طبقہ دیدہ و دانستہ مبتلا ہے اور مخلص طبقہ ان ضدی اور غالی لوگوں کے فریب اور دھوکہ کا شکار ہے۔
اگر ان غلطیوں سے یہ لوگ تائب ہوجائیں تو اللہ تعالیٰ کے دوستوں اور پیاروں حضرات ائمہ مجتہدین، ماہرین قرآن و حدیث رحمہم اللہ کے بغض و کینہ اور مخالفت سے محفوظ ہوجائیں اور من عادی لی و لیا فقد اذنتہ بالحرب یعنی جس نے میرے پیارے دوست سے دشمنی کی اس سے میری (اللہ تعالیٰ کی) طرف سے اعلان جنگ ہے، کی شدید وعید سے بچ جائیں گے، ہم مختصراً ان دونوں غلطیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے اس کا مدلل بطلان قارئین کرام کی خدمت میں پیش کرنا چاہیں گے۔    ؎        
شاید کے اتر جائے تیرے دل میں میری بات
غلطی نمبر:۱
چونکہ مجتہدین معصوم نہیں اس لئے ہم ان کی تقلید نہیں کرتے بلکہ تحقیق کرکے ان کے صحیح اور غلط اجتہادات کو جانچتے ہیں تاکہ غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح کہا جائے۔
غلطی نمبر:۲
ہر اختلاف مذموم اور برا ہے، خواہ وہ اصول اور عقائد کا اختلاف ہو یا فروع و اعمال کا یا سنت و بدعت کا، چونکہ ائمہ مجتہدین رحمہم اللہ میں بھی فروعی مسائل میں اختلاف ہے اس وجہ سے ہم غیر مقلدین ان ائمہ سے بھی ناراض ہیں۔
غلطی نمبر:۱ کا بطلان
نام نہاد اہلحدیث میں یہ غلطی ان کے بڑے بھائی منکرینِ حدیث سے آئی ہے، انہوں نے انکارِ حدیث کے لئے آسان اور کامیاب بہانہ یہ تلاش کیا ہے، چونکہ محدثین معصوم نہیں اس لئے ہم تحقیق کرکے ان کی غلطی کو غلطی اور صحیح کو صحیح کہنا چاہتے ہیں، غیر مقلدین نے بعینہ یہی بات ائمہ مجتہدین رحمہم اللہ سے متعلق کہنا شروع کیا کہ یہ معصوم نہیں ، لہٰذا ہمیں پرکھنے کا حق دیا جائے۔
قارئین کرام!     اتنی بات تو صحیح اور یقینی ہے کہ حضرات ائمہ مجتہدین رحمہم اللہ معصوم نہیں لیکن یہ بات ادھوری ہے، جیسے حضرات ائمہ مجتہدین رحمہم اللہ معصوم نہیں غیر مقلدین بھی تو معصوم نہیں، مگر یہاں بات معصوم اور غیر معصوم کی نہیں بات اہل اور نااہل کی ہے کہ کون تحقیق کا اہل ہے اور کون نہیں؟ جیسے محدثین اپنے فن میں اہل ہیں اور منکرینِ حدیث (نام نہاد اہلِ قرآن) نا اہل ہیں خواہ اپنی جماعت میں کتنے بڑے مصنف ہوں، جیسے محمد اسلم جیراج پوری سابق اہلحدیث، غلام احمد سابق اہلحدیث، لیکن محدثین کے سامنے فن حدیث میں نااہل ہیں، ان کی باتوں کو تحقیق نہیں کہا جائے گا بالکل نااہل کی منازعت کہا جائے گا جو شرعاً گناہِ کبیرہ ہے، اسی طرح ائمہ مجتہدین رحمہم اللہ اور غیر مقلدین میں یہ فرق نہیں کہ مجتہدین معصوم ہیں اور غیر مقلدین معصوم ہیں، بلکہ فرق یہ ہے کہ وہ لوگ باجماع امت اہلِ اجتہاد سے ہیں اور یہ لوگ باجماع امت نا اہل ہیں، اس لئے ان نااہلوں کا حضرات مجتہدین رحمہم اللہ سے الجھنا نااہل کی منازعت ہے، حضور  جب بیعت لیتے تو اس میں یہ عہد بھی لیتے : "ان لا تنازع الامر اھلہ۔ کہ ہم اہل امر سے منازعت (جھگڑا اور اختلاف) نہیں کریں گے "، تعجب ہے کہ حدیث جس کو منازعت اور بیجا اختلاف قرار دے یہ لوگ اس کا نام تحقیق رکھیں۔
الحاصل مجتہدین رحمہم اللہ کی مخالفت کا نام تحقیق نہیں بلکہ نااہل کی منازعت ہے۔
کیا نااہل کو تحقیق و استنباط کی اجازت ہے؟
نااہل کا معاملہ مجتہد کے معاملہ سے بالکل برعکس ہے، مجتہد جو کہ اہل ہے سے خطا بھی ہوجائے تو اُسے اجر ملتا ہے اور نااہل جیسے غیر مقلدین صحیح بات بھی پالے تو اُسے اجر کے بجائے گناہ ہوگا، آپ کا ارشاد ہے:
عن ابن عباسؓ عن النبی  قال: اتقوا الحدیث عنی الا ما علمتم فمن کذب علی متعمدا فلیتبوأ مقعدہ من النار و من قال فی القرآن برأیہ فلیتبوأ مقعدہ من النار ۔
(ترمذی:۲/۱۲۳)
 "نبی کریم  نے ارشاد فرمایا: مجھ سے صرف وہی باتیں نقل کیا کرو جو تمہیں یقینی طور پر معلوم ہوں، اس لئے کہ جس نے قصداً میری طرف جھوٹی بات منسوب کی اس نے اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالیا اور جو قرآن کریم میں اپنی رائے چلائے گا اس نے بھی اپنے لئے ٹھکانہ جہنم میں بنالیا "۔
اور ایک دوسری حدیث میں فرمایا:
عن جندب بن عبد اللہؓ قال: قال رسول اللہ : من قال فی القرآن برأیہ فاصاب فقد اخطا۔
(ترمذی:۲/۱۲۳)
 "یعنی جس نے قرآن میں اپنی رائے لگائی اور درست بات بھی پالی تو بھی وہ گناہگار ہوگا "۔
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: د"تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ مجتہد ہر اجتہاد میں اجر پاتا ہے، اگر ا سکا اجتہاد درست نکلا تو دو اجر کا مستحق ہے، ایک اجر اجتہاد کا دوسرا اصابت کا اور اگر اجتہاد خطا نکلا تو بھی ایک اجر ملے گا، ہاں! جو نااہل ہو اس کو اجتہاد سے حکم کرنا کسی حال میں جائز نہیں، بلکہ وہ گناہگار ہے، اس کا حکم نافذ بھی نہ ہوگا اگرچہ اس کا حکم حق کے موافق ہو یا مخالف، کیونکہ اس کا حق کو پالینا محض اتفاقی ہے، کسی اصلِ شرعی پر مبنی نہیں، پس وہ تمام احکام میں گناہگار ہے، حق کے موافق ہو یا مخالف اور اس کے نکالے ہوئے تمام احکام مردود ہیں، اس کا کوئی عذر شرعاً مقبول نہیںد"۔
(شرح نووی علی بہامش صحیح مسلم:۲/۷۶)
افسوس ہے کہ منکرینِ حدیث اور غیر مقلدین نے اس گناہ کبیرہ جس کا ٹھکانہ دوزخ کے سوا کہیں نہیں کا نام تحقیق رکھا ہے اور اس کو عمل بالقرآن اور عمل بالحدیث کہتے ہیں۔
اندھی تقلید کیا ہے؟
نام نہاد اہلحدیث کہتے ہیں کہ حضرات ائمہ مجتہدین رحمہم اللہ کی تقلید اندھی تقلید ہے، لہٰذا اسے چھوڑئیے اور ہمارے ساتھ مل جائیے، قارئین کرام! ان نااہل نام نہاداہلحدیث کی جہالت کی انتہاء دیکھئے! انہیں تو اندھی تقلید کا معنیٰ تک نہیں معلوم، اندھی تقلید اس کو کہتے ہیں کہ اندھا اندھے کے پیچھے چلے، تو لازماً دونوں کسی کھائی میں گرجائیں، گے اگر اندھا کسی آنکھوں والے کے پیچھے چلے تو آنکھ والا اپنی آنکھ کی برکت سے اپنے آپ کو بھی اور اس اندھے کو بھی ہر کھائی سے بچاکر لیجائے گا اور منزل تک پہنچادے گا، حضرات ائمہ مجتہدین رحمہم اللہ معاذ اللہ اندھے نہیں ہیں، عارف اور بصیر ہیں، البتہ اندھی تقلید کا شکار وہ لوگ ہیں جو خود بھی اندھے ہیں اور ان کے پیشوا بھی اجتہاد کی آنکھ سے محروم ہیں، رسول اللہ نے فرمایا:
عن عبد اللہ بن عمروؓ قال: قال رسول اللہ : ان اللہ لا یقبض العلم انتزاعا ینتزعہ من العباد، و لکن یقبض العلم بقبض لعلماء حتی اذا لم یبق عالما اتخذ الناس رؤوساجھالا فسئلوا بغیر علم فضلوا و اضلوا۔
(مشکوٰۃ:۱/۳۳)
 "جو جاہل کو دینی پیشوا بنائے تو وہ جاہل خود بھی گمراہ ہوگا اور اپنے ماننے والے کو بھی گمراہ کرے گا "۔
یہ اندھی تقلید ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں پیغمبرِ معصوم  اور مجتہدِ ماجور رحمہم اللہ کی تحقیق پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں اور فتنوں سے محفوظ فرمائیں۔ آمین
تحقیق اور استنباط نااہل کا کام کیوں نہیں.....!
قارئین کرام! تحقیق نااہل کا مقام نہیں، کیونکہ اس میں جب تک تین باتوں کی تحقیق مکمل نہ ہوجائے اُسے تحقیق نہیں کہا جاسکتا، وہ تین باتیں جن کی تحقیق ضروری ہے یہ ہیں:
۱۔        "دلیل  " مثلاً حدیث جس سے حکم ثابت کیا جاتا ہے ، وہ خود ثابت اور صحیح ہو۔
۲۔       "اس دلیل  " مثلاً حدیث سے جو سمجھا جاتا ہے وہی مراد رسول اللہ  ہو، وہ معنیٰ اور مطلب مرادِ رسول  کے خلاف نہ ہو۔
۳۔      اگر اس دلیل و حدیث کے معارض کوئی اور حدیث ہو تو اس تعارض اور اختلاف کو رفع کیا جائے، حضرات محدثین رحمہم اللہ نے ساری عمر پہلی بات کی تحقیق میں صرف فرمادی، مرادِ رسول کو سمجھنے کو اور رفع تعارض کو مجتہدین کے حوالہ کردیا، البتہ مجتہدین کی تحقیق کامل ہوتی ہے، وہ نبوت، دلالت یعنی مرادِ رسول اور رفع تعارض تینوں کی پوری پوری تحقیق کرتے ہیں، اسی لئے ان آخری دو باتوں میں خود حضرات محدثین رحمہم اللہ بھی حضرات مجتہدین رحمہم اللہ کی تقلدین کرتے ہیں، چنانچہ اسی تقلید کا نتیجہ ہے کہ حضرات محدثین علیہم الرحمہ کا ذکر چار ہی قسموں کی کتابوں میں ملتا ہے:۔۱۔ طبقاتِ حنفیہ۔ ۲۔طبقاتِ مالکیہ۔ ۳۔طبقاتِ شافعیہ۔ ۴۔طبقاتِ حنابلہ، طبقات غیر مقلدین نامی کوئی کتاب محدثین کے حالات میں آج تک کسی مسلم مؤرخ و محدث نے نہیں لکھی۔
قارئین عظام!     چونکہ ان تین باتوں کی تحقیق اہل فن اور ماہر کتاب و سنت ہی کا کام ہے نہ کہ نااہل کا، نااہل میں یہ صلاحیت اور استعداد ہی نہیں کہ ان تین باتوں سے متعلق کچھ کرسکے، جبکہ ان کے بغیر تحقیق نامکمل ہی رہتی ہے۔
نااہل کا مقام مجتہد کی تقلید ہے نہ کہ ان پر اعتراض.....!
چونکہ نااہل نہ تو خود تحقیق و استنباط کرسکتا ہے اور نہ ہی اس کے لئے تحقیق کرنا جائز ہے، اس لئے اس پر واجب اور ضروری ہے کہ مسائل اجتہادیہ میں مجتہد اور ماہر شریعت کی تقلید کرے، مجتہد کا اعلان ہے کہ ہم پہلے مسئلہ قرآن پاک سے لیتے ہیں، وہاں نہ ملے تو سنت سے، وہاں نہ ملے تو اجماعِ صحابہؓ، اگر حضرات صحابہؓ میں اختلاف ہوجائے تو جس طرف حضرات خلفائے راشدینؓ ہوں اُسے لیتے ہیں، اگر یہاں بھی نہ ملے تو اجتہادی قاعدوں سے مسئلہ کا حکم تلاش کرلیتے ہیں، جس طرح حساب دان ہر نئے سوال کا جواب حساب کے قواعد کی مدد سے معلوم کرلیتا ہے اور وہ جواب اس کی ذاتی رائے نہیں ہوتا بلکہ فنِ حساب کا ہی جواب ہوتا ہے، ظاہر ہے کہ جب حساب دان کے سامنے سوال آئے گا تو وہ خود حساب کے قواعد سے سوال کا جواب نکال لے گا اور جس کو حساب کے قاعدے نہیں آتے وہ حساب دان سے جواب پوچھ لے گا، اسی طرح مسائلِ اجتہادیہ میں کتاب و سنت پر عمل کرنے کے بھی دو طریقے ہیں، جو شخص مجتہد ہوگا وہ خود قواعدِ اجتہادیہ سے مسئلہ تلاش کرکے کتاب و سنت پر عمل کرے گا اور غیر مجتہد یہ سمجھ کر کہ میں خود کتاب و سنت سے مسئلہ استنباط کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا، اس لئے کتاب و سنت کے ماہر مجتہد سے پوچھ لوں کہ اس میں کتاب و سنت کا کیا حکم ہے؟ اس طرح عمل کرنے کو تقلید کہتے ہیں اور مقلد ان مسائل کو مجتہد کی ذاتی رائے سمجھ کر عمل نہیں کرتا، بلکہ یہ سمجھ کر کہ مجتہد نے ہمیں مراد خدائے تعالیٰ اور مرادِ رسول  سے آگاہ کیا ہے۔
نااہل کن مسائل میں مجتہد کی تقلید کرے گا؟
قارئین کرام!     مسائل اجتہادیہ میں نااہل یعنی غیر مجتہد مجتہد کی تقلید کرے گا، تفصیل اس کی یہ ہے کہ تقلید صرف مسائلِ اجتہادیہ ہی میں کی جاتی ہے اور حدیثِ معاذ رضی اللہ عنہ (جس کو نواب صدیق خان غیر مقلد حدیثِ مشہور فرماتے ہیں) اجتہاد اور اس کے مقام کے تعین کے لئے کافی دلیل ہے کہ جو مسئلہ صراحتاً کتاب و سنت میں نہ ہو تو اس کا حکم رائے اور اجتہاد کے اصولوں سے کتاب و سنت سے مجتہد اخذ کرے گا۔
نااہل کو تحقیق کا حق نہیں... اس کی دلیل کیا ہے؟
قارئین کرام!     جس طرح دنیا میں ہر فن میں اس کی بات مانی جاتی ہے جو اس فن میں کامل مہارت رکھتا ہو، نہ کہ فن سے ناآشنا کی، مثلاً ہیرے جواہرات کے بارے میں ماہر جوہری کی تحقیق مانی جائے گی نہ کہ کسی موچی کی، سونے کے بارے میں کسی ماہر سنار کی تحقیق مانی جائے گی کہ کسی لوہار کی، قانون میں تحقیقی بات ماہر قانون دان کی ہوگی نہ کہ کسی مداری کی، اسی طرح دین میں بھی دین کے ماہرین کی بات تحقیقی مانی جائے گی، ان ہی کے مستنبطہ اور نکالے ہوئے مسائل کو قبول کیا جائے گا نہ کہ ہر کندۂ ناتراش اور نادان کی بات کا اعتبار ہوگا۔


دلیل
جس اللہ تعالیٰ نے تحقیق کا حکم دیا ہے اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی واضح طور پر فرمادی کہ تحقیق کا حق کس کس کا ہے؟ چنانچہ اللہ تعالیٰ کے درج ذیل ارشاد سے بخوبی معلوم ہتا ہے کہ تحقیق کا حق صرف دو ہستیوں وک ہے، ایک اللہ کے رسول ہیں اور دوسری ہستی مجتہد کی ہے، ان دو علاوہ سب نااہل ہیں، جن کو تحقیق کا حق نہیں۔
آیت کریمہ
وَإِذَا جَاءَهُمْ أَمْرٌ مِنَ الْأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُوا بِهِ وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَى أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّيْطَانَ إِلَّا قَلِيلًا o
د"اور جب ان لوگوں کو کسی امر کی خبر پہنچتی ہے خواہ امن ہو یا خوف، تو اس کو مشہور کردیتے ہیں اور اگر یہ لوگ اس کو رسول  کے اور جو ان میں سے ایسے امور کو سمجھتے ہیں ان کے اوپر حوالہ رکھتے تو اس کو وہ حضرات و تو پہچان ہی لیتے جو ان میں اس کی تحقیق کرلیا کرتے ہیں اور اگر تم لوگوں پر خدا کا فضل اور رحمت نہ ہوتی تو تم سب کے سب شیطان کے پیرو ہوجاتے ، بجز تھوڑے سے آدمیوں کےد"۔
آیت کریمہ کی مختصر تشریح
مفسر قرآن حضرت شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:د"یعنی ان منافقوں اور کم سمجھ مسلمانوں کی ایک خرابی یہ ہے کہ جب کوئی بات امن کی پیش آتی ہے (مثلاً رسول اکرم کا کسی کا صلح کا قصد فرمانا یا لشکر اسلام کی فتح کی خبر سننا) یا کوئی خبر خوفناک سن لیتے تو ہیں (جیسے دشمنوں کا کہیں جمع ہونا یا مسلمانوں کی شکست کی خبر آنا) تو ان کو بلا تحقیق کئے یہ مشہور کردیتے ہیں اور اس میں اکثر فساد و نقصان مسلمانوں کو پیش آجاتا ہے، منافق ضرر رسانی کی غرض سے اور کم سمجھ مسلمان کم فہمی کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں، کہیں سےکچھ خبر آئے تو چاہئے کہ اول سردار تک اور اس کے نائبوں تک پہنچائیں، جب ہو اس خبر کی تحقیق اور تسلیم کرلیں تو ان کے کہنے کے موافق اس کو کہیں نقل کریں اور اس پر عمل کریںد"۔
طرزِ استدلال
اس آیت کریمہ میں تحقیق کا حق پہلے نمبر حضرت رسول اکرم کو دیا گیا ہے اور آپ کے بعد اہل استنباط کو، جن کو اصطلاح میں مجتہدین کہتے ہیں۔
استنباط کے معنیٰ
استنباط کا معنیٰ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو پانی زمین کی تہہ میں پیدا کرکے عوام کی نظر سے چھپا رکھا ہے اس پانی کو کنواں وغیرہ بناکر نکال لینا۔
قارئین کرام!     قرآن کریم کی یہ حد درجہ کی بلاغت ہے کہ اجتہاد اور فقہ کو لفظ استنباط کہہ کر ایسی عام فہم مثال سے اجتہاد اور فقہ کو سمجھایا جس سے ہر شخص آسانی سے اجتہاد اور فقہ کی حقیقت سمجھ سکتا ہے۔
قارئین عظام!     اجتہاد اور فقہ کی حقیقت تین امور پر مشتمل ہے۔
۱۔       فقہ،اسلامی زندگی کے لئے بے حد ضروری ہے، اس کے بغیر اسلامی زندگی نامکمل اور مردہ ہے۔
۲۔      اجتہاد اور فقہ کسی شحص کی ذاتی خواہش کا نام نہیں، بلکہ قرآن و حدیث کے (اندر اللہ تعالیٰ اور رسول اکرم  کے) ان مسائل کا نام ہے جن تک عوام کی رسائی ممکن نہیں۔
۳۔      اجتہاد اور فقہ جدید مسائل گھڑنے کا نام نہیں، بلکہ روزِ اول سے جو مسائل قرآن کریم کی آیات اور احادیث مبارکہ میں ہیں ان کے بیان کرنے کا نام ہے۔
مثال اور ممثّل لہ میں مطابق
قارئین کرام!     لفظ استنباط سے مثال دے کر د"امرِ اولد" اس طرح سمجھادیا کہ انسانی زندگی کے لئے جتنا پانی ضروری ہے کہ اس بغیر نہ تو وضو ہوسکتا ہے نہ غسل، نہ کپڑے صاف ہوسکتے ہیں اور نہ کھانا پکایا جاسکتا ہے، اسی طرح اسلامی زندگی کے لئے فقہ ضروری ہے، عبادات ہو یا معاملات، اقتصادیات ہوں یا سیاسیات، حدود ہوں یا تعزیرات، غرض زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جس میں فقہ کی رہنمائی ضروری نہ ہو۔
 "امرِ ثانی  " اس طرح سمجھادیا کہ جس طرح زمین کی تہہ میں جو پانی ہے وہ اللہ تعالیٰ ہی کا پیدا کیا ہوا ہے نہ کہ اس انسان کا جس نے کنواں کھود کر اس کو نکال لیاہے، جب بھی کوئی آدمی کسی کنویں کا پانی پتا ہے تو اس عقیدے سے پیتا ہے کہ اس پانی کا ایک ایک قطرہ اللہ تعالیٰ ہی کا پیدا کیا ہوا ہے نہ کہ مستری اور کھودنے والے کا، مستری نے اپنی محنت اور اوزاروں کی مدد سے صرف اس کو ظاہر کردیا تاکہ خلقِ خدا مستفید ہوں، اسی طرح فقہ اور اجتہاد و استنباط کسی شخص کی ذاتی خواہش کا نام نہیں بلکہ مجتہد کا دین کے باریک مسائل کو اصولِ فقہ کی مدد سے عوام کے سامنے ظاہر کرنے کا نام ہے، تاکہ قرآن و حدیث کی ان مسائل پر عوام کے لئے عمل کرنا آسان ہو، یہی وجہ ہے کہ اصول فقہ میں ہر مجتہد کا ایک ہی اعلان ہوتا ہے:د"القیاس مظھر لا مثبت۔ کہ ہم قیاس کی مدد سے کتاب و سنت کی تہہ میں میں پوشیدہ مسائل کو صرف ظاہر کرتے ہیںد"، حاشا و کلّا ہم ہرگز کوئی مسئلہ اپنی ذات سے گھڑ کر کتاب و سنت کے ذمہ نہیں لگاتے۔
 "امرِ ثالث  " اس طرح سمجھادیا کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے جب زمین پیدا فرمائی اس دن سے یہ پانی اس کی تہہ میں پیدا فرمادیا، البتہ اس کا نکالنا ضرورت کے مطابق ہوتا رہا، کسی علاقہ میں کنویں چار ہزار سال پہلے بن گئے، کسی ملک میں چار ہزار سال بعد، لیکن جہاں بھی پانی نکالا گیا وہ اللہ تعالیٰ ہی کا پیدا کردہ تھا، کوئی عقلمند یہ نہیں کہہ سکتا ہے جن علاقوں میں پہلے پانی نکلا وہ تو اللہ تعالیٰ کا پیدا کردہ تھا اور جن علاقوں میں بعد میں کنویں بنائے گئے وہ بعد میں کسی انسان کا پیدا کردہ پانی تھا، اسی طرح پہلی صدی میں حضرات فقہائے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے جو اجتہادات فرمائے انہوں نے بھی اللہ تعالیٰ اور حضرت رسول اکرم کے ہی مسائل بیان فرمائے اور دوسری صدی میں ائمہ مجتہدین رحمہم اللہ نے جو اجتہادات فرمائے وہ بھی کتاب و سنت کے مسائل کا بیان اور تفصیل تھی، فرق صرف اس قدر رہا کہ صحابہ کرامؓ کی مبارک زندگیوں کا اکثر حصہ جہاد میں گذرا، اس لئے ان نفوسِ قدسیہ کو اس کی مکمل تدوین کا موقع نہیں، ملا، یہ سعادت حضرات ائمہ اربعہ رحمہم اللہ کی قسمت میں تھا کہ کتاب و سنت کے ظاہر و پوشیدہ مسائل کو پوری تشریح اور تفصیل کے ساتھ نہایت آسان اور عام فہم ترتیب سے مدوّن فرمایا تاکہ قیامت تک مسلمانوں کو کتاب و سنت پر عمل کرنا آسان ہوجائے۔
قارئین کرام!
حضرات ائمہ اربعہ رحمہم اللہ کے ناموں سے مشہور فقہی مسائل کو ان کی ذاتی خواہش اور نوزائدہ کہہ کر رد کرنا اور ان مسائلِ فقہیہ پر عمل کرنے والوں کو مشرک کہنا ایسی احمقانہ بات ہے جیسے کہ ایک شخص نے کنواں بنالیا، ہزاروں لوگ اس سے پانی پی رہے ہیں، وضو، غسل کرکے نماز پڑھ رہے ہیں، کھانا پکارہے ہیں، اب کوئی احمق شور مچادے کہ اس کنویں کا تعارفی نام د"چودھری نواب دیند" کا کنواں ہے، اس لئے جو اس میں پانی ہے وہ اللہ تعالیٰ کا پیدا کیا ہوا نہیں ہے بلکہ یہ پانی چودھری نواب دین کا پیدا کیا ہوا ہے، چودھری نواب دین اللہ کا شریک بنا بیٹھا ہے، جو لوگ اس کنویں سے پانی پیتے ہیں وہ مشرک ہیں، نہ ان کا وضو صحیح ہے نہ غسل، نہ ان کی نماز صحیح ہے نہ روزہ، تو کیا کوئی عقلمند آدمی اس احمق کی ان خرافات پر کان دھرے گا؟
غیر مقلدین کا حضرات ائمہ اربعہ رحمہم اللہ اور ان کے مقلدین کے ساتھ بعینہ وہی سلوک ہے جو سلوک اس احمق کا جناب چودھری نواب دین اور اس کے بنائے ہوئے کنویں سے پانی لینے والوں سے ہے، حضرت ائمہ اربعہ رحمہم اللہ نے کتاب و سنت کے مسائل کو ظاہر کردیا اور کنویں کی شکل دیدی، ان کے مقلدین ان مسائل کے مطابق نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ میں مصروف ہوگئے، ہمارے نام نہاد اہلحدیث دوست ان کے پیچھے پڑگئے، کبھی کہتے ہیں کہ یہ پانی اللہ تعالیٰ کا پیدا کیا ہوا نہیں، ورنہ اس کے ہر ہر قطرے پر اللہ کا نام لکھا ہوا دکھاؤ، کبھی کہتے ہیں ساری عمر ایک ہی کنویں کے پانی سے وضو کرنا یہ تو تقلید شخصی ہے اور یہ شرک ہے، ہر نمازی کا فرض ہے کہ فجر کی نماز کا وضو اپنے گھر کے کنویں سے کرے، ظہر کا وضو دوسرے ضلع کے کنویں سے ، عصر کا وضو کسی اور صوبہ کے کنویں سے، مغرب کا کسی اور سے اور عشاء کا کسی اور علاقہ کے کنویں سے کرے، اگر سب نمازوں کے لئے وضو ایک ہی کنویں کے پانی سے کرے گا تو گویا اس نے تقلید کی اور یہ شرک ہے۔
اہل السنۃ والجماعۃ کہتے ہیں کہ جب ہم کنویں کے محتاج ہیں تو جس کنویں کا پانی آسانی سے دستیاب ہوجائے ساری عمر اسی ایک کنویں کا پانی پینا، وضو و غسل کرنا، کھانا پینا، پکانا بالکل درست ہے، اس کو شرک کہہ کر تمام مسلمانوں کو مشرک بنانا دین کی کوئی خدمت نہیں۔
مذکورہ آیۃ کریمہ امورِ جہادیہ کے ساتھ خاص ہے یا امورِ اجتہادیہ اور قیاس کو بھی شامل ہے؟
قارئین کرام!     آیتِ کریمہ کو امورِ جہادیہ کے ساتھ خاص سمجھنا غلط ہے، حضرات مفسرین رحمہم اللہ نے اسے عام رکھا ہے، مفسر عظیم علامہ امام رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
دلت ھذہ الایۃ علی ان القیاس حجۃ فی الشرع و ذلک لان قولہ (الذین یستنبطونہ منھم) صفۃ لاولی الامر و قد اوجب اللہ تعالیٰ علی الذین یجیئھم امر من الامن او الخوف ان یرجعوا فی معرفتہ الیھم ، و لایخلوا ما ان یرجعوا الیھم فی معرفتہ ھذا الوقائع مع حصول النص فیھا او لا مع حصول النص فیھا، و الاول باطل لان علی ھذا التقدیر لا یبقی الاستنباط لان من روی النص فی واقعۃ لا یقال :انہ استنبط الحکم فثبت ان اللہ امر المکلف برد الواقعۃ الی من یستنبط الحکم فیھا ولو لا ان الاستنباط حجۃ لما امر المکلف بذٰلک فثبتا ان الاستنباط حجۃ و القیاس امام استنباط او داخل فیہ فوجب ان یکون حجۃ اذا ثبت ھذا فنقول : الاٰیۃ دالۃ علی اموت احدھا ان فی احکام الحوادث ما لایعرف بالنص بل بالاستنباط و ثانیھا ان الاستنباط حجۃ و ثالثھا ان العامی یجب علیہ تقلید العلماء فی احکام الحوادث و رابعھا: ان النبی  کان مکلفا بالاستنباط الاحکام لانہ تعالیٰ امر بالرد الی الرسول و الی اولی الامر ۔
(تفسیر الکبیر:۴/۱۵۴)
ترجمہ:۔ یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ قیاس شرعی حجتوں میں سے ایک حجتِ شرعیہ ہے، وہ اس طرح کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد: الذین یستنبطونہ منھمد"اولی الامرد" کی صفت واقع ہے، تحقیق اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جن کے پاس کوئی امن کا معاملہ یا خوف کی کوئی بات پیش آئے تو اولی الامر کی طرف (اس معاملہ کی تحقیق کے بارے میں) رجوع کا حکم دیا اور اہل معرفت کی طرف رجوع خالی نہیں یا تو اس واقع میں نص موجود ہوگی یا نہیں، بصورت اول باطل (یعنی اس واقع کی معرفت میں رجوع جس میں نص موجود ہے) اس لئے کہ اس صورت میں استنباط باقی نہیں رہے گا، کیونکہ جس سے کسی واقع میں نص مروی ہو کو اس کی بابت یہ نہیں کہا جائے گا کہ اس نے حکم مستنبط کیا، پس ثابت ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ نے مکلفین کو (تحقیقِ حال کے لئے) پیش آمدہ واقعہ کو اہل استنباط پر رد کرنے کا حکم کردیا، اگر استنباط حجت ہے اور قیاس یا تو (خود نفس) استنباط ہوگا یا استنباط کے تحت داخل ہوگا، (بہر صورت) اس کا حجت ہونا ثابت ہوگیا، جب یہ ثابت ہوگیا تو ہم کہتے ہیں کہ آیتِ مذکورہ درجِ ذیل امور پر دلالت کرتے ہیں:
۱۔بعض احکام وہ ہیں جو نص سے نہیں پہچانے جائیں گے بالکل استنباط سے ثابت کئے جائیں گے۔ ۲۔استنباط حجتِ شرعیہ ہے۔  ۳۔عام لوگوں پر احکامِ حوادث میں علماء کی تقلید واجب ہے۔ ۴۔ آپ احکام کو استنباط سے ثابت کرنے کے مکلّف تھے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے (پیش آمدہ واقعہ میں تحقیق کے لئے) رسول اکرم اور اہلِ اجتہاد کی طرف رجوع کا حکم دیا۔
سوال:
مندرجہ بالا آیت میں (فضل و رحمت) سے کیا مراد ہے؟
کیا کسی ایک مفسر نے یہ کہا ہو کہ اس سے مراد لوگوں کا امورِ اجتہادیہ میں حضرت رسول اکرم  اور حضرات مجتہدین رحمہم اللہ کی طرف رجوع کرنا ہے؟ اگر ہے تو حوالہ پیش کریں؟
جواب:
جی ہاں! حضرت علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
والمراد من الفضل والرحمة شىء واحد أى لولا فضله سبحانه عليكم ورحمته بإرشادكم الى سبيل الرشاد هو الرد الى الرسول صلى الله عليه و سلم والى أولى الأمر۔
(روح المعانی:۳/۹۵)
ترجمہ:۔ فضل اور حمت سے ایک شئی مراد ہے، یعنی اگر تم پر اللہ کا فضل اور رحمت نہ ہوتی بایں طور کہ ہدایت کے راستہ کی طرف تمہاری رہنمائی نہ کرتا، وہ ہدایت کا راستہ جس میں رسول  اور حضرات مجتہدین رحمہم اللہ کی طرف رد اور رجوع ہوتا ہے(یعنی امورِ اجتہادیہ میں)۔
مقامِ رسول ﷺ
رسول اللہ  دین میں اپنی طرف سے کوئی بات نہیں گھڑتے، بلکہ وہ اللہ ہی کا پیغام اس کے بندوں تک پہنچاتے ہیں اور صرف پہنچاتے ہی نہیں بلکہ سکھاتے بھی ہیں، ان کی حیثیت معلم کی بھی ہے، وہ اپنے قول و فعل اور تقریر سے اس پیغام کی تشریح کرتے ہیں، وہ صرف مبلغ و معلم ہی نہیں مبیّن بھی ہیں، اللہ تعالیٰ کی نگرانی میں اس کی وحی کی تشریح کرتے ہیں، وہ قاضی اور حکم بھی ہیں کہ احکامِ الہٰیہ کو نافذ کرتے ہیں، ان کی پوری زندگی وحی کے مطابق ڈھلی ہوئی ہونے کی وجہ سے پوری کائنات کے لئے اسوۂ حسنہ ہے، وہ دین کے ہر فیصلہ میں معصوم ہیں، یہ درحقیقت اللہ تعالیٰ بہت بڑا فضل اور مہربانی تھی کہ اپنی وحی کی تشریح اپنی نگرانی میں معصوم پیغمبر  سے کرادی تاکہ بندوں کے لئے اللہ تعالیٰ کے احکام سمجھنے اور عمل کرنے میں کسی پریشانی کا سامنا نہ ہو وہ حقوق بندگی پورے اطمینان کے ساتھ ادا کرسکیں، لیکن شیطان جو اولادِ آدم کو گمراہ کرنے کی قسم کھا آیا تھا اس نے کتنے ہی لوگوں کو اپنے پیچھے لگالیا کہ اللہ اور بدوں کے درمیان رسول کا واسطہ یقیناً ہے، لیکن اتنا جتنا کہ ڈاکیہ اور چٹّھی رساں کا ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ کے کلام کا پہچاننا اس کا کام ہے اور سمجھنا ہمارا اپنا کام ہے، وہ لوگ دین کے نام پر لوگوں کو بے دین کرنے لگے اور شیطان کے پیچھے لگ کر یوں کہنے لگے کہ رسول اللہ  مخولق ہیں، اگر ان کے کلام کو بھی مان لیا تو گویا مخلوق کو اللہ کے برابر مان لیا اور یہ شرک ہے، چنانچہ پیغمبر پاک سے منہ موڑ کر اپنی ذہنی سطح کے موافق اور اپنی خواہشاتِ نفسانی کے موافق ایک نیا اسلام گھڑ لیا، اس نئے اسلام کو اللہ خالق کا اسلام  اور اصلی اسلام کو رسولؐ کا گھڑا ہوا اسلام قرار دیا اور اپنا نام اہلِ قرآن رکھ لیا، وہ لوگ اپنی ہر خواہش کو قرآن کا نام دیتے ہیں، جن کا انگریز کے دور سے پہلے کوئی ترجمہ قرآن نہیں، وہ قرآن کے مالک بن بیٹھے اور پوری امت کو رسولؐ سمیت منکر قرآن قرار دیا، بھولے بھالے لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں، یہ غلط ہے کہ اہلِ قرآن نیا فرقہ ہے بلکہ جب سے قرآن ہے اسی وقت سے اہل قرآن ہیں، کبھی کہتے ہیں کہ جب قرآن سچا تو اہلِ قرآن سچے، تم قرآن کو سچا مان کر اہل قرآن کو جھوٹا نہیں کہہ سکتے، پہلے (معاذ اللہ) قرآن کو جھوٹا کہو پھر اہل قرآن کو جھوٹا کہہ لینا ، جب اہل قرآن کی خرافات جسے وہ قرآن کے نام سے پیش کرتے ہیں غلط ثابت کیا جاتا ہے تو فوراً یہ کہہ کر جان چھڑا جاتے ہیں کہ ہم اس کو نہیں مانتے، ہم صرف قرآن کو مانتے ہیں اگر آج کے اہل قرآن کو مانا ضروری ہوتا تو رسول پاک کو ہی مان لیتے، ان کو کیوں چھوڑتے ،اس طرح دو شیطانی خرافات پھیلاتے بھی ہیں اور جان بھی بچاتے ہیں، قرآن پاک نے خود اس طرز کو اتباع شیطان قرار دیا ہے نہ کہ اتباعِ قرآن۔
مجتہد کا مقام
مجتہد شریعت دان اور ماہر شریعت ہوتا ہے اور اس مہارت کی وجہ سے قرآن کریم اور احادیث مبارکہ کے دو گہرے اور مخفی مسائل جو ابتداء سے ان میں موجود ہیں اور ہر کس و ناکس کا ذہن وہاں تک نہیں پہنچتا کو ظاہر کرنے والا ہوتا ہے، شریعت ساز نہیں ہوتا، مجتہد اگرچہ معصول نہیں ہوتا، لیکن مطعون بھی نہیں ہوتا کہ اس کے اجتہاد پر کوئی طعن کرے، کیونکہ وہ اپنے ہر ہر اجتہاد میں ماجور ہوتا ہے، اگر وہ صواب کو پالے تو دو اجر کا مستحق ہے، ورنہ ایک اجر کا کما فی حدیث البخاری، یہ مقام امت میں مجتہد کے علاوہ کسی کو نصیب نہیں کہ اس کی خطاء پر اجر کا وعدہ ہو۔
الحاصل!
یہی دو ہستیاں (رسول اللہ  اور مجتہد) دین میں تحقیق، تشریح اور تفصیل کی حقدار ہیں اور دین کے پہریدار ہیں، یہ بھی اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا فضل اور مہربانی ہے کہ تحقیق اور اجتہاد کا بوجھ ہم جیسے ضعیفوں کے کندھوں پر نہیں ڈالا بلکہ مجتہدین کی تحقیقی پر عمل کرنے کا حکم دے کر ایک طرف دین کو نااہلوں کی تحریف سے بچالیا، دوسری طرف ہمیں اطمینان ہے کہ مجتہد کی رہنمائی میں کیا ہوا عمل یقیناً اللہ تعالیٰ کے دربار میں مقبول ہے اور ایک اجر کا بھی پکا یقین ہے اور دوسرے اجر کی اس کی رحمت واقعہ سے امید ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل اور مہربانی کی بعض لوگوں نے قدر نہ کی اور مجتہدین سے بغاوت کرکے اپنی کم فہمی سے دین کی نئی نئی تشریحات شروع کردیں، مجتہد کے بارے میں اللہ اور رسول  نے یہی بتایا تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ  کا مسئلہ ہی بتاتا ہے، لیکن ان لوگوں نے اس کے خلاف یہ پروپیگنڈہ شروع کردیا کہ مجتہد اللہ تعالیٰ اور رسول  کے خلاف مسئلے بتاتے ہیں، مجتہد کی تقلید شرک فی الرسالہ ہے، تمام حنفی، شافعی، مالکی اور حنبلی مشرک ہیں، ائمہ کرامؒ نے دین کے ٹکڑے ٹکڑے کرڈالے ہیں، ائمہ مجتہدین کو چھوڑ کر اپنی اپنی حدیث نفس کا اتباع شروع کردیا اور نام اہلحدیث رکھ دیا اور اپنے بھائیوں کی طرح کہنے لگے کہ اہل حدیث نیا فرقہ نہیں، جب سے حدیث ہے اس وقت سے اہل حدیث ہے۔
نا اہل کا مقام
نااہل چونکہ کتاب و سنت کی تحقیق کا اہل نہیں ہوتا اس لئے اس کا مقام اہل کی تقلید کرنا ہے نہ کہ دین کی غلط تشریح کرنا۔
رسول اللہ  سے کسی سائل نے قیامت کے بارے میں سوال کیا تو آپؐ نے فرمایا: جب امانت ضائع کی جائے تو قیامت کا انتظار کر، سائل نے عرض کیا: حضرتؐ! امانت کس طرح ضائع ہوتی ہے؟ فرمایا: جب کوئی امر نااہلوں کے سپرد کردیا جائے تو قیامت کا انتظار کر۔
(بخاری:۱/۱۴)
آپ  نے کسی عالمگیر حقیقیت کا انکشاف فرمایا ہے! بتائیے...! کیا جب ڈاکٹری نسخے وکیل لکھنا شروع کردیں تو ڈاکٹری پر قیامت نہ آئے گی؟ جب سونے کی جانچ سناروں کے بجائے کمہار کرنے لگیں تو قیامت نہیں آجائے گی؟ اسی طرح جب دین کی تشریحات ناہل کریں گے تو کیا دین پر قیامت نہ آئے گی؟
أپ نے فرمایا کہ: دین کا علم(کتاب و سنت کے الفاظ)نہیں اٹھایا جائے گا (بلکہ الفاظِ کتاب و سنت یہی رہیں گے) مگر اس کے علماء اٹھا لئے جائیں گے، یہاں تک کہ کوئی باقی نہ رہے گا تو لوگ ناواقفوں کو اپنی پیشوا بنالیں گے اور وہ بغیر علم کے فتوے دیں گے، خود گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔
(صحیح بخاری)
دین کے اصل علماء تو مجتہدین ہی ہوتے ہیں، بعد کے علماء ناقل ہیں، جو نااہل ہوکر خود اجتہادی پر اتر آتے ہیں، وہ خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی گمراہ کردیتے ہیں، اگرچہ لوگوں کو دھوکہ دینے کے لئے اس گمراہی کا ام خوبصورت سا رکھ لیا جائے، جیسے انکارِ حدیث کی گمراہی کا نام د"اہلِ قرآند" رکھنے سے حقیقت بدل گئی؟ تبرأ بازی کا نام د"تنقیدِ صالحد" رکھنے سے حقیقت بد گئی؟ نہیں! ہرگز نہیں!! جس طرح اہل قرآن پر فاسق و فاجر کو قرآن کے سمجھنے سمجھانے کا حق دیتے ہیں، مگر نبی معصوم  سے یہ حق چھیننا چاہتے ہیں، اسی طرح اہلِ حدیث ہر فاسق و فاجر ، ہر جاہل، کندۂ ناتراش کو اجتہاد کا حق دیتے ہیں، مگر ائمہ مجتہدین جن کا مجتہد ہونا صلیل شرعی یعنی اجماع امت سے ثابت ہے اور وہ یقیناً اپنے ہر فیصلہ میں ماجور ہیں، ان سے یہ حق چھیننا چاہتے ہیں، اہل قرآن و اہل حدیث کا ایک ہی مشن ہے کہ لوگ نبی معصوم  اور مجتہد ماجور کو چھوڑ کر جاہلوں کو اپنا دینی پیشوا بنالیں، جو خود بھی گمراہ ہوں اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں۔
غلطی نمبر:۲ کا بطلان
قارئین کرام!     ہر قسم کے اختلاف کو ضلالت و گمراہی اور حق و باطل کا اختلاف کہنا بذات خود بہت بڑی گمراہی ہے اور متعدد باطل نظریات کا پیش خیمہ ہے، ذیل میں اس کی تفصیل ملاحظہ ہو:
اقسامِ اختلاف
اختلاف کی تین قسمیں ہیں: ۱۔دین میں اختلاف ، اس کو اسلام اور کفر کا اختلاف بھی کہتے ہیں۔ ۲۔سنت اور بدعت کا اختلاف، یعنی ایک جانب اہل سنت و الجماعت ہوتے ہیں اور دوسری جانب اہل بدعت وھواء ہوتے ہیں۔ ۳۔ اجتہادی اختلاف، یعنی ایک مجتہد فروعی مسائل میں سے ایک مسئلہ کا جو حکم بتاتا ہے دوسرا مجتہد اس کے خلاف بتاتا ہے۔
اختلاف کی پہلی قسم
دین میں اختلاف یہ اسلام اور کفر کا اختلاف ہے، تمام ضروریاتِ دین کو ماننا ایمان اور اسلام ہے اور کسی ایک امرِ ضروری کا انکار یا تاویلِ باطل کرنا کفر ہے۔
مثال:   عقیدۂ ختم نبوت ضروریاتِ دین میں سے ہے، اب اگر کوئی یہ کہے کہ میں آپ کو خاتم النبیین نہیں مانتا، تو وہ انکار کی وجہ سے کافر ہے اور اگر کوئی کہے کہ میں خاتم النبیین تو مانتا ہوں لیکن خاتم النبیین کے معنیٰ آخری نبی نہیں بلکہ ا س کے معنیٰ  "نبی گر "یعنی آپ مہریں لگا لگا کر نئے نبی بنایا کرتے تھے، تو یہ بھی کافر ہے تاویلِ باطل کی وجہ سے۔
ضروریاتِ دین کا مطلب
ضروریاتِ دین وہ امورِ دینیہ ہیں جو ایسی نص اور دلیل سے ثابت ہو جس کا ثبوت اور معنی پر دلالت دونوں قطعی اور یقینی ہوں اور امور کا دین میں ہونا ہر اس شخص کو معلوم ہو جس کا تھوڑا بہت دین سے تعلق ہو۔
تنبیہ:
ضروریاتِ دین میں پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے، ان میں اختلاف صرف ضدی، معاند اور ہٹ دھرم ہی کرسکتا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: و ھدیناہ النجدین o (البلد)د"اور ہم نے انسان کو دونوں راستے بتلادئے ہیںد"، یعنی جنت کا راستہ جس کو دین اسلام کہا جاتا اور جہنم کا راستہ جس کو کفر کہا جاتا ہے، دونوں اللہ تعالیٰ نے بتادئے ہیں۔
قارئینِ کرام!     غور کرکے فیصلہ کیجئے، جب بتانے والے اللہ تعالیٰ ہیں تو پھر کس منہ سے ہم کہیں گے کہ ہیں جنت و جہنم کے راستہ کا پتہ نہیں چلتا، کیا اللہ تعالیٰ سے بہتر وضاحت اور کھول کر بیان کرنے والی کوئی اور ہوسکتا ہے؟
برادرانِ محترم!    ہمارا امتحان اس میں نہیں لیا جارہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جنت و جہنم کے راستوں کو مخفی اور گول مول بیان کرکے ہمیں چکر میں ڈال دیا ہو کہ کوشش اور ریاضت سے معلوم کرتے رہو، جس کو معلوم ہوجائے وہ کامیاب ورنہ نا کام، بلکہ ہمارا امتحان اس میں لیا جارہا ہے کہ ہم نے صاف صاف کھول کر جنت کا راستہ بھی بتایا ہے اور جہنم کا بھی، اب تیرا امتحان ہے کہ تو کس راستہ پر چلتا ہے؟ جو جنت کے راستے یعنی دینِ اسلام پر چلے گا کامیاب ہوگا اور جو شیطان اور نفس کے بہکانے سے جہنم کے راستہ یعنی کفر کو اختیار کرے گا اور ناکام ہوگا، ایک اور آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان دونوں راستوں کا بیان یوں فرمایا: فالھمھا فجورھا و تقویٰھا۔ (الشمس)  "پھر اللہ تعالیٰ نے ہر نفس کو فجور یعنی جہنم کا راستہ اور تقویٰ یعنی جنت کے راستہ کا الہام کیاد"، یعنی بتادیا کہ یہ جنت کا راستہ ہے اور جہنم کا راستہ۔
اختلاف کی دوسری قسم
یعنی سنت اور بدعت کا اختلاف، اس کی مختصر تفصیل یہ ہے کہ اسلام میں داخل ہونے والوں کے بارے میں رسول اکرم نے فرمایا کہ: میری امت میں تہتر (۷۳) فرقے ہوں گے، بہتر (۷۲) ان میں سے دوزخی ہوں گے اور ایک جنتی، حضرات صحابہ کرامؓ نے عرض کیا یارسول اللہ! وہ جنتی فرقہ کونسا ہے؟ آپ نے فرمایا:  "ما انا علیہ و اصحابی ۔یعنی وہ فرقہ جس کا طریقہ میری سنت کے موافق اور میرے صحابہؓ کی چال چالن کے مطابق ہو "۔
(مشکوٰۃ:۳۰)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ یہ ۷۳ فرقے سب کے سب دین محمدی میں داخل ہونے کی وجہ سے محمدی ہیں، مگر نجات پانے والے صرف سنی محمدی ہیں۔

اہل بدعت اور اہل سنت کی پہچان!
اہل سنت وہ لوگ ہیں جو تمام ضروریات اہل سنت کو مانتے ہیں، ان میں سے ایک کا انکار کرنے والا بھی اہل سنت سے خارج ہوتا ہے اور اہلِ بدعت فرقوں میں شامل ہوجاتا ہے، جس نے تقدیر میں اہلِ سنت کے عقیدہ کی غلط تاویل کی تو وہ اہلِ سنت نہ رہا بلکہ اہلِ بدعت اور قدریہ فرقہ میں شامل ہوگیا اور جس نے عقیدۂ عذابِ قبر میں غلط تاویل کردی وہ اہلِ بدعت اور معتزلہ فرقہ میں شامل ہوگیا۔
اختلاف کی تیسری قسم
یعنی اجتہادی اختلاف، یہ اختلاف اہلِ سنت میں دائر ہے، اس اختلاف کی وجہ سے نہ فرقے بنتے ہیں اور نہ ہی یہ حق و باطل اور جنت و جہنم کا اختلاف ہے، یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرامؓ، تابعینِ عظامؒ اور تبع تابعینؒ میں باوجود اتفاقِ عقائد کے فروع میں اختلاف ہوتا تھا، کیا اس فروعی اختلاف کی وجہ سے ان کو اہلِ حق سے نکال کر دوزخی فرقوں میں کوئی (بدنصیب) داخل کرسکتا ہے؟
سوال:
مجتہدین ماجور ہوتے ہیں یا مطعون کہ ان کو برا بھلا کہا جائے؟
جواب:
مجتہدین حضرات رحمہم اللہ حدیثِ رسول  کےمطابق ہر صورت میں ماجور ہیں۔
عن عمرو بن العاص ؓ انہ سمع رسول اللہ  یقول: اذا حکم الحاکم فاجتھد فاصاب فلہ اجران و اذا حکم فاجتھد ثم اخطا فلہ اجر۔
(بخاری:۲/۱۰۹۲۔ مسلم:۲/۷۶)
رسول اللہ  کا ارشاد ہے:  "جب حاکم اجتہاد سے فیصلہ کرے اور صحیح فیصلہ پر پہنچ جائے تو اس کو دو اجر ملتے ہیں اور اگر حاکم اجتہاد سے فیصلہ کرے اور اس سے خطا ہوجائے تو ایک اجر کا مستحق ہے "۔
اس حدیث مبارک سے معلوم ہوا کہ مجتہد معصوم نہیں ہوتا کیونکہ اجتہاد میں خطا کا احتمال بھی ہے، مگر وہ مطعون بھی نہیں ہوتا کہ اس پر زبانِ طعن دراز کی جائے، بلکہ مجتہد کے لئے ہر حال میں اجر و ثواب موجود ہے، خواہ دو اجر کا مستحق ہو یا ایک اجر کا۔
قارئین کرام!     جس کو اللہ تعالیٰ اجر دے رہا ہے ان پر اعتراض کرنے والا اپنی ہی نقصان کرتا ہے، مجتہد کا ذرہ برابر بھی نقصان نہیں۔
جنت کے قافلے
الحاصل ہر مجتہد جنت کے قافلے کا سردار اور اس کا امیر ہے، مسلمانانِ عالم ان کی رہنمائی میں جنت کی طرف رواں دواں ہیں۔
برادرانِ محترم!    اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مجتہدین کا اختلاف جنت دوخ اور ایمان و کفر اور حق و باطل کا اختلاف نہیں کہ ایک مجتہد کے قافلے کو جنت اور حق کا قافلہ کہا جائے اور دوسرے مجتہد کو دوزخ اور باطل کا قافلہ کہا جائے، کیونکہ دوزخ اور باطل کی طرف رہنمائی کرنے والے کو ہرگز اجر نہیں ملتا، جبکہ یہاں حدیث مبارک میں ہر صورت میں اجر کا وعدہ ہے۔
سوال:
حدیث میں حاکم کا ذکر ہے، جس سے حکمران مراد ہیں، اگر کسی نے اس سے مجتہد مراد لیا ہو تو ثبوت پیش کیا جائے؟
جواب:
حدیث میں حاکم سے مجتہد اور ایسا عالم جو حکم اور استنباط کی اہلیت رکھتا ہو کو مراد لینے کا پوری امتِ مسلمہ کا اجماع ہے اور خود غیر مقلدین نے بھی اس حدیث کو دیکھ کر بادل ناخواستہ اجتہادی مسائل کا اقرار کیا ہے۔
۱۔ اجماعِ مسلمین
قال الامام النووی رحمۃ اللہ علیہ قال العلماء: اجمع المسلمون ان ھذا الحدیث فی حاکم عالم اھل للحکم فان اصاب فلہ اجران ، اجر باجتھادہ و اجر باصابتہ و ان اخطا فلہ اجر باجتھادہ ، قالوا: فاما من لیس باھل للحکم فلا یحل لہ فان حکم فلا اجر لہ بل ھو آثم لا ینفذ حکمہ سواء وافق الحق ام لا، لان اصابتہ اتفاقیۃ لیست صادرۃ عن اصل شرعی، فھو عاص فی جمیع احکامہ سواء وافق الصواب ام لا ، وھی مردودۃ کلھا لا یعذر فی شئ من ذلک ۔
(النووی شرح مسلم:۲/۷۶، قدیمی کتب خانہ)
یعنی حضرات علماءکرام رحمہم اللہ نے فرمایا کہ سب مسلمانوں کا اس بات پر اجماع اور اتفاق ہے کہ اس حدیث میں حاکم سے مراد ایسا عالم ہے جس میں حکم، فیصلہ اور استنباط کی اہلیت و صلاحیت ہو، پس اگر یہ صحیح فیصلہ تک پہنچ جائے تو اس کے لئے دو اجر ہیں، ایک اجتہاد کی وجہ سے اور ایک صحیح تک پہنچنے کی وجہ سے، اور اگر اس سے خطا ہوجائے تو بھی اس کو اجتہاد کی وجہ سے ایک اجر ملتا، انہوں نے فرمایا کہ وہ شخص جس میں فیصلہ اور استنباط کی اہلیت نہیں اس کے لئے اجتہاد و استنباط جائز نہیں، اگر باوجود نااہل ہونے کے اس نے تاجہاد کرکے کوئی فیصلہ کیا اور مسئلہ بتایا تو اس کو اجر نہیں ملے گا بلکہ اس کی وجہ سے گنہگار ہوگا اور اس کا یہ فیصلہ نافذ نہ ہوگا، خواہ موافق ہو یا مخالف، اس لئے کہ اس کا صحیح بات کہنا ایک اتفاقی امر ہے، کسی شرعی اصول پر مبنی نہیں، لہٰذا یہ نا اہل تمام فیصلوں اور مسئلوں کے بتانے سے گنہگار ہوگا، خواہ وہ حق کے موافق ہو یا نہ ہو اس کے یہ تمام فصیلہ مردود ہوں گے اور اس کو کسی بھی بات میں معذور نہیں سمجھا جائے گا۔
 "اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس نے اگر ایک مسئلہ صحیح بتادیا ہے تو ۱۰۰/مسئلہ غلط بتائے گا، کیونکہ ہے تو یہ نااہل، اور جس طرح نااہل ڈاکٹر علاج کرنے سے گنہگار ہوتا ہے اگرچہ اس کے علاج کسی کو شفاء بھی ہوجائے، اسی طرح غیر مجتہد اور نا اہل قرآن و حدیث سے مسائل نکالنے پر پابندی ہے، لہٰذا خلاف ورزی کرے گا تو گناہگار ہوگا اور اس کا کوئی عذر نہ سنا جائے گا "۔
(حضرت مولانا مفتی احمد)
سلف کی نظر میں اہلِ حدیث سے کون مراد ہیں؟
قرونِ اُولٰی اور قرونِ وسطیٰ میں اہلحدیث سے مراد وہ اہلِ علم تھے، جو حدیث پڑھنے پڑھانے راویوں کی جانچ وپڑتال اور حدیث کی شرح وروایت میں مشغول رہتے ہوں، حدیث ان کا فن ہو اور وہ علمی طور پر اس کے اہل ہوں، دوسرے لفظوں میں یوں سمجھئے کہ ان ادوار میں اہلحدیث سے محدثین مراد لئے جاتے تھے؛ اگرکوئی علمی طور پر اس درجے میں نہیں کہ حدیث پرکوئی فیصلہ دے یااس کے راویوں کوپہچانے توصاف کہہ دیا جاتا تھا کہ وہ اہلحدیث میں سے نہیں ہے، عامی ہے، حافظ ابن تیمیہؒ (۷۲۸ھ) ایک مقام پر محدثین کی اس عادت پرکہ فضائل میں ضعیف حدیثیں بھی روایت کردیتے ہیں، تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"والبيهقي يروي في الفضائل أحاديث كثيرة ضعيفة بل موضوعة كما جرت عادة أمثاله من أهل العلم "۔
(منہاج السنۃ:۳/۸)
ترجمہ:بیہقی فضائل میں بہت سے ضعیف بلکہ موضوع احادیث بھی لے آتے ہیں جیسے کہ ان جیسے اہلِ علم کی عادت جاری ہے۔
ایک اور مقام پر فرماتے ہیں کہ جس طرح علم نحو میں نحویوں کی طرف، لغات میں علماء لغت کی طرف، شعر میں علماء ادب کی طرف اور طب میں علماء طب کی طرف رجوع کیا جاتا ہے، ظاہر ہے کہ اہلِ حدیث سے مراد بھی وہ علماء فن ہوں گے جن کی طرف اس فن میں رجوع کیا جاسکے:
"المنقولات فيها كثير من الصدق وكثير من الكذب والمرجع في التمييز بين هذا وهذا إلى أهل علم الحديث كما نرجع إلى النحاة في الفرق بين نحو العرب ونحو غير العرب ونرجع إلى علماء اللغة فيما هومن اللغة وماليس من اللغة وكذلك علماء الشعر والطب وغير ذلك فلكل علم رجال يعرفون به والعلماء بالحديث اجل هؤلاء قدرا وأعظمهم صدقا وأعلاهم منزلة واكثر دينا"۔
(منہاج السنۃ:۴/۱۰۔ ازالاجوبۃ الفاضلہ:۱۴۲)                 
ترجمہ:اس باب میں صدق وکذب پرمشتمل روایات بہت ہیں، سچی اور جھوٹی کی تمیز کے لیے اہلحدیث کی طرف ہی رجوع کرنا ہوگا، جیسے نحو کے باب میں نحویوں کی طرف، لغت کے باب میں علماء لغت کی طرف رجوع کیا جاتا ہے..... ہرعلم کے کچھ رجال ہوتے ہیں، انہیں اس علم کے پہلو سے جانا جاتا ہے، علماء حدیث ان سب سے زیادہ جلیل القدر ہیں، سب سے زیادہ سچے ہیں اور سب سے اُونچا درجہ رکھتے ہیں اور ان میں دین بہت زیادہ پایا جاتا ہے۔
حافظ جمال الدین الزیلعی (۷۶۲ھ) ابن دمیہ سے نقل کرتے ہیں:
"وَيَجِبُ عَلَى أَهْلِ الْحَدِيثِ أَنْ يَتَحَفَّظُوا مِنْ قَوْلِ الْحَاكِمِ، فَإِنَّهُ كَثِيرُ الْغَلَطِ ظَاهِرُ السَّقْطِ، وَقَدْ غَفَلَ عَنْ ذَلِكَ كَثِيرٌ مِمَّنْ جَاءَ بَعْدَهُ، وَقَلَّدَهُ فِي ذَلِكَ "۔   
  (نصب الرایہ:۱/۳۴۵)
ترجمہ:اہل حدیث پرلازم ہے کہ حاکم کے قول سے بچیں وہ بہت غلطیاں کرتے ہیں، ناقابل اعتماد ہیں، بہت سے لوگ جو ان کے بعد آئے اور اس میں اس کی پیروی کرتے رہے اس حقیقت سے ناواقف ہیں۔
دوسری صدی کے جلیل القدر محدث حضرت امام شافعی ایک جگہ حدیثد" لاوصیہ لوارثد" کے بارے میں لکھتے ہیں:
"أنه لايثبته أهل الحديث ولكن العامة تلقته بالقبول وعملوا به "۔
    (فتح المغیث:۱/۲۸۹، شاملہ،الناشر: دار الكتب العلمية،لبنان)
ترجمہ:اہلحدیث تواسے ثابت نہیں مانتے لیکن عامۃ الناس نے اسے قبول کیا اور اس پر عمل کیا۔
محدثین میں ہلال بن یساف کے بارے میں ایک سوال اُٹھا کہ اس نے وابصہ بن معبد اسدی کوپایا ہے یانہیں؟ اور یہ روایت کس طرح ہے، اس پر امام ترمذی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
"وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْحَدِيثِ فِي هَذَا فَقَالَ بَعْضُهُمْ حَدِيثُ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ رَاشِدٍ عَنْ وَابِصَةَ بْنِ مَعْبَدٍ أَصَحُّ وَقَالَ بَعْضُهُمْ حَدِيثُ حُصَيْنٍ عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ عَنْ زِيَادِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ عَنْ وَابِصَةَ بْنِ مَعْبَدٍ أَصَحُّ قَالَ أَبُو عِيسَى وَهَذَا عِنْدِي أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ عَمْرِو ابْنِ مُرَّةَ"۔
(ترمذی، كِتَاب الصَّلَاةِ،بَاب مَاجَاءَ فِي الصَّلَاةِ خَلْفَ الصَّفِّ وَحْدَهُ،حدیث نمبر:۲۱۳، شاملہ، موقع الإسلام)
ترجمہ:اہلحدیث کا اس میں اختلاف ہے بعض کہتے ہیں عمروبن مرہ کی روایت زیادہ صحیح اور بعض کہتے ہیں حصین کی روایت زیادہ صحیح ہے۔
یہ عبارت بڑی وضاحت سے بتلارہی ہے کہ اہلحدیث سے مراد یہاں محدثین ہیں سند میں محدثین کے اختلاف کواختلاف اہلحدیث کہہ کر ذکر کیا گیا ہے؛ یہاں فقہی مسلک کاکوئی فرقہ مراد نہیں جس میں تعلیم یافتہ اور غیرتعلیم یافتہ دونوں قسم کے لوگ ہوں، یہ تیسری صدی ہجری کی تحریر صریح طور پر بتلا رہی ہے کہ ان دنوں اہلحدیث سے مراد محدثین لیے جاتے تھے، نہ کہ کوئی فقہی مسلک یافرقہ، ابوابراہیم الانصاری المدینی کے بارے میں لکھتے ہیں:
"لَيْسَ ہُوَبِالْقَوِيِّ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيث ِ"۔                  
(ترمذی:۱/۲۱)
ترجمہ:وہ اہلحدیث کے ہاں قوی نہیں ہے۔
ایک اور راوی کے بارے میں لکھتے ہیں:
"تَكَلَّمَ فِيهِ بَعْضُ أَهْلِ الْحَدِيثِ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ "۔
(ترمذی،كِتَاب الْمَنَاقِبِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ،بَاب مَنَاقِبِ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،حدیث نمبر:۳۶۹۹، شاملہ، موقع الإسلام)
ترجمہ:اس میں بعض اہلحدیث نے حفظ کی رو سے کلام کیا ہے۔
پھرایک اور جگہ لکھتے ہیں:
"وَهُوَ ضَعِيفٌ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ "۔
(ترمذی،كِتَاب الصَّلَاةِ،بَاب مَاجَاءَ فِي الْجَمْعِ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ فِي الْحَضَرِ،حدیث نمبر:۱۷۳، شاملہ، موقع الإسلام)
ترجمہ:وہ اہلِ حدیث کے ہاں ضعیف ہے۔
امام ترمذی اہلحدیث کوکہیں کہیں اصحاب الحدیث کہہ کربھی ذکر کرتے ہیں، حدیث د"لاتزال طائفۃ من امتی ظاہرین علی الحقد" کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ان سے مراد اصحاب الحدیث ہیں، امام بخاری نے بھی تصریح کی ہےکہ اس سے مراد علم حدیث کے ماہراہل العلم ہیں۔                                   
(بخاری:۲/۱۰۸۷)
خطیب بغدادی (۴۶۲ھ) ابوعبداللہ الحاکم کے اس زعم پرکہ حدیث طیبہ اور حدیث  "من کنت مولاہ " صحیحین کی شرطوں کے مطابق ہیں، جرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"فانکرعلیہ اصحاب الحدیث ذلک ولم یلتفتوا الی قولہ ولاصوبوہ علی فعلہ "۔  
(تاریخ بغداد۵/۴۷۴)
ترجمہ:اصحاب الحدیث نے اس پرانکار کیا ہے اور اس کی بات پرتوجہ نہیں کی اور اسے اس کے عمل میں درست نہیں کہا۔
حافظ ابن عبدالبر مالکی (۴۶۳ھ) بھی ایک جگہ لکھتے ہیں:
"وقالت فرقة من أهل الحديث: إن وطئ في الدم فعليه دينار، وإن وطئ في انقطاعه فنصف دينار ورأت فرقہ من اھل الحدیث تطویل السجود فی ذلک "۔      
(تمہید:۳/۱۷۶)
ترجمہ: اہل حدیث کی ایک جماعت نے کہا ہے اگراس نے ایام میں اس سے صحبت کی تواسے ایک دینار صدقہ لازم آئے گا اور بعض اہلِ حدیث نے کہا ہے کہ اس پر دراز سجدہ اس کے ذمہ ہے۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ اہلحدیث میں فقہی مسلک کے کئی فرقے تھے، اہلحدیث خود کوئی فقہی مسلک یافرقہ نہ تھا نہ ان کی کوئی علیحدہ جماعت بندی تھی، امام نووی شارح صحیح مسلم ساتویں صدی ہجری کے نامور محدث ہیں، آپ نے ایک مقام پرحذف الفاظ کی بحث کی ہے، اس میں آپ محدثین کی عادت ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"جرت عادت اہل الحدیث بحذف قال ونحوہ فیمابین رجال الاسناد فی الخط وینبغی للقاری ان یلفظ بھا"۔                        
(مقدمہ شرح نووی:۱۹، دہلی)
ترجمہ:اہل حدیث کا طریقہ تحریری رجال اسناد میں قال وغیرہ کے الفاظ کوحذف کرتا رہا ہے؛ لیکن قاری کو چاہیے کہ وہ انہیں بولاکرے۔
ظاہر ہے کہ یہاں اہلِ حدیث سے مراد اصحابِ اہل فن علماء حدیث ہی ہوسکتے ہیں نہ کہ کسی ایک فقہی مسلک کے عوام ، اس سے پتہ چلتا ہے کہ ساتویں صدی ہجری تک اہلِ علم کے ہاں اہلحدیث سے مراد محدثین ہی لیے جاتے تھے، ایک اور مقام پرلکھتے ہیں:
"یجوز عند اہل الحدیث التساہل فی الاسانید الضعیفۃ وروایۃ ماسوی الموضوع من الضعیف والعمل بہ "۔  
              (تقریب بشرح التدریب:۱۹۶)
ترجمہ:اہلِ حدیث کے ہاں اسانید ضعیفہ میں بشرطیکہ موضوع کی حد تک نہ ہوں؛ درگزر سے کام لینا اور اس پرعمل کرنا جائز رکھا گیا ہے۔
صحیح البخاری کے الفاظ  "فاجازوہ " کی شرح میں حافظ ابن حجرعسقلانی (۸۵۲ھ) لکھتے ہیں:
"فمعنى قول البخاري فأجازوه أي قبلوه منه ولم يقصد الاجازه المصطلحة بين أهل الحديث "۔   
 (فتح الباری:۱/۱۶۴)
ترجمہ:امام بخاریؒ نے  "فاجازوہ "کےالفاظ اجازت کے اس معنی میں استعمال نہیں کیے جو اہل حدیث کی اصطلاح ہے۔
حافظ ابن حجر کے ان الفاظ سے یہ بات واضح ہے کہ ان دنوں اہلحدیث سے کوئی فقہی مکتبِ فکرہرگز مراد نہ تھا؛ بلکہ اس سے اہلِ فن محدثین ہی مراد لیے جاتے تھے اور ان کی اپنی اپنی اصطلاحات تھیں اور اس سے یقیناً اہلِ علم کا ہی ایک طبقہ مراد ہوتا تھا، حافظ ابن حجرعسقلانی رحمہ اللہ ایک اور مقام پر حدیث  "لَنْ تزال ھذہ الامۃ قائمۃ علی امراللہ " کی شرح میں لکھتے ہیں:
"وقد جزم البخاري بأن المراد بهم أهل العلم بالآثار وقال أحمد بن حنبل إن لم يكونوا أهل الحديث فلا أدري من هم "۔              
(فتح الباری:۱/۱۶۴)
ترجمہ:امام بخاری نے پورے یقین سے کہا ہے کہ اس سے مراد احادیث کے اہلِ علم ہیں اور امام احمد فرماتے ہیں کہ اگراس سے اہلحدیث مراد نہ ہوں تومیں نہیں جانتا کہ پھرکون لوگ مراد ہوں گے۔
"لَانورث ماترکناہ صدقۃ" مشہور حدیث ہے، حضور نے فرمایا: انبیاء کی وراثت نہیں ہوتی، ہم جوچیز چھوڑیں وہ صدقہ میں جائے گی، شیعہ علماء نے اسے اپنے مقصد کے خلاف سمجھتے ہوئے د"لَانُورثد" کے الفاظ کو  "لَایورث  " سے بدل دیا، اب معنی یہ ہوگئے کہ ہم مسلمان جوچیز صدقہ میں چھوڑیں اسے وراثت میں نہ لایا جائے، اب یہ مسئلہ وراثت انبیاء سے نکل کر ایک عام ضابطہ میں آگیا کہ صدقہ میں دی گئی چیز پھراپنی ملکیت میں نہیں لی جاتی، حافظ ابن حجر لکھتے ہیں کہ یہاں دیکھنا چاہیے محدثین کی اصل روایت کیا ہے اور انہوں نے حدیث کوکن الفاظ میں ضبط کیا ہے، وہ لکھتے ہیں:
"والذي توارد عليه أهل الحديث في القديم والحديث لا نورث بالنون "۔
(فتح الباری کما فی حاشیۃ ابی داؤد:۲/۴۱۴)
یہاں اہلِ حدیث سے مراد فنِ حدیث کے ماہرین ہیں، اس وقت تک اہلحدیث کا لفظ انہی معنوں میں بولا جاتا تھا جوعہد قدیم میں اس لفظ کے معنی تھے، یہ لفظ اہلِ علم کے اس طبقہ کے لیے استعمال ہوتا تھا جومحدثین تھے، یہ کسی ایک مکتبِ فکر یافرقے کا نام نہ تھا، یہ ماہرین فن سب اس پرمتفق ہیں کہ اصل روایت نون سے ہے یاسے نہیں، اہلِ حدیث الفاظ حدیث کوان کے اصل مراجع ومصادر سے پہچانتے ہیں اور وہ محدثین ہیں؛ سو اس میں کوئی شک نہیں کہ اہلحدیث باصطلاح قدیم سے مراد فن حدیث کے جاننے والے تھے، اہل العلم بالآثار سے یہی مراد ہے، علامہ شامی محقق ابن ہمام (۸۶۱ھ) سے یہ بحث نقل کرتے ہیں کہ خوارج کوکافر کہا جائے یانہ؟ محقق ابنِ ہمام نے لکھا ہے:
"وَذَهَبَ بَعْضُ الْمُحَدِّثِينَ إلَى كُفْرِهِمْ، قَالَ ابْنُ الْمُنْذِرِ: وَلَاأَعْلَمُ أَحَدًا وَافَقَ أَهْلَ الْحَدِيثِ عَلَى تَكْفِيرِهِمْ "۔ 
  (ردالمحتار:۳/۴۲۸)
ترجمہ: بعض محدثین ان کی تکفیر کے قائل ہیں ابن المنذر نے کہا ہے میں نہیں جانتا کہ کسی نے اس پرمحدثین کی موافقت کی ہو۔
نویں صدی کے اہلحدیث میں حافظ ابن حجر عسقلانی (۸۵۲ھ) اور حافظ ابن ہمام اسکندری (۸۶۱ھ) کے ناموں سے کون واقف نہیں، پہلے بزرگ شافعی ہیں اور دوسرے حنفی اور دونوں اہلِ حدیث سے حدیث کے علماء فن مراد لیتے تھے، ان الفاظ سے کوئی خاص فقہی مسلک مراد نہیں لیا جاتا تھا۔
اہلِ فن محدثین میں پھرکئی فرقے اور مسالک تھے، ان میں حنفی بھی تھے اور شافعی بھی، اہلحدیث خود کسی فرقے کا نام نہ تھا، کسی محدث کا فقہی مسلک اس کے اہلحدیث ہونے کے خلاف نہ سمجھا جاتا تھا، محدث ہونے کے پہلو سے سب اہلِ حدیث تھے، نویں صدی کا حال اور اس دور کے علماء کی اصطلاح ابنِ ہمام کی اس تحریر سے ظاہر ہے؛ پھرعلامہ شامیؒ (۱۲۵۳ھ) اسے تیرہویں صدی ہجری میں نقل کرتے ہیں اور اس میں کہیں اختلاف ذکر نہیں کرتے کہ اہلحدیث نام سے ان دنوں کوئی غیرمقلد جماعت بھی مراد لی جاتی تھی، معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت تک اہلحدیث سے وہ اہلِ علم ہی مراد لیے جاتے تھے، جوفن حدیث میں حاذق اور صاحب الرائے ہوں، جس طرح تفسیر پڑھنے پڑھانے والے اہلِ تفسیر اور زبان پرکامل دسترس رکھنے والے اہل لغت کہلاتے تھے، محدثین کا یہ طبقہ اہلِ حدیث کے نام سے بھی کبھی ذکر ہوتا تھا، ہندوستان میں حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی سے حدیث کی باقاعدہ اشاعت ہوئی، آپ کے دور تک لفظ اہل الحدیث اسی پرانی اصطلاح سے جاری تھا، حضرت شیخ ایک مقام پر لکھتے ہیں:
"وکانوالہ اصحاب من التابعین واتباعہم وکلہم کانوا اہل الحدیث والفقہ والزھد والورع "۔            
(انوارالسنۃ لردادالجنۃ:۱۲، مطبع:حسامیہ، دیوبند)
ترجمہ:تابعین اور تبع تابعین میں ان کے کئی ساتھی تھے اور وہ سب اہلحدیث وفقہ وزہدورع تھے۔
اہلحدیث سے مراد ترک تقلید کے نام سے ایک فقہی مسلک ہوا یہ جدید اصطلاح اسلام کی پہلی تیرہ صدیوں میں کہیں نہیں ملتی، اس کا آغاز چودھویں صدی ہجری سے ہوتا ہے؛ یایوں سمجھ لیجئے کہ تیرہویں صدی کے آخر میں ہندوستان میں اس کے لیے کچھ حالات سازگار ہوگئے تھے۔
کیاعصر ِحاضر کےغیر مقلدین اہلِ حدیث ہیں؟
برصغیر ہند وپاک میں تقریبا بارہ صدیوں سے اسلام آیا، یہاں اسلام لانے والے، اسلام پھیلانے والے اور اسلام قبول کرنے والے سب کے سب اہل السنتہ والجماعتہ حنفی المسلک تھے ،یہاں تمام محدثین و مفسرین، فقہاء و اولیاء کرام و سلاطین عظام حنفی المسلک تھے۔ الحمدﷲ علی ذالک۔
لیکن جب سے انگریز کے شاطروغاصب قدم یہاں آئے تو وہ یورپ سے ذہنی آوارگی، مادر پدر آزادی اور دینی بے راہ روی کی سوغات ساتھ لائے اور مذہبی آزادی اور مذہبی تحقیق کے خوشنما اور دلفریب عنوانوں سے اس ملک میں ایک خود سرفرقے کو جنم دیا۔
اس فرقے کا پہلا قدم سلف صالحین سے بدگمانی اور اس کی انتہا سلف کے خلاف بدزبانی ہے یعنی اس فرقے کا ہر شخص اعجاب کل ذی رای برایہ پر نازاں و فرحاں ہونے کے ساتھ ساتھ لعن آخر ہذہ الامتہ اولھا کا مصداق ہے۔ اس فرقے کا ہر فرد اپنے آپ کو آئمہ اربعہ بلکہ صحابہ کرام علیہم الرضوان سے اعلیٰ و برتر سمجھتا ہے۔
ہم اس کے مکمل حقائق پر نہیں بلکہ جملہ حقائق میں ایک حقیقت کی جانب توجہ مبذول کرانا چاہتے ہیں جو ہمارا موضوع بحث ہے اور وہ اس فرقہ زائفہ کی تاریخ پیدائش ہے۔ جس کے جاننے کے بعد آپ پر جھوٹے لبادے اہلحدیث کی حقیقت آشکارا ہوجائے گی۔
اس ایک فرق کو ضرور سمجھنے کی کوشش کیجئے کہ یہ فرقہ رسول اﷲ کے زمانے سے ۱۴ سو سال بعد پیدا ہوا ہے جو فرقہ رسول اﷲ کے زمانے سے اتنا بعد میں پیدا ہوا ہو وہ کیونکر علم و عمل اخلاص وللہیت اجتہاد و استنباط میں خیر القرون میں پائے جانے والے خواص تو کجا عوام کے مقابلے میں افضل ہوسکتا ہیٍ؛ چنانچہ ان کی کہانی خود انہی کی زبانی،اس محاورے کے استشہاد اور مطابقت کے لئے ملاحظہ ہو۔
 مولانا عبدالخالق اور نذیر حسین دہلوی صاحبان فرماتے ہیں:
سو بانی مبانی اس فرقہ نواحداث کا عبدالحق ہے جو چند دنوں سے بنارس میں رہتا ہے اور حضرت امیرالمومنین (سید احمدشہید) نے ایسی حرکات نائشہ کے باعث اسے اپنی جماعت سے نکال دیا اور علمائے حرمین معظمین نے اس کے قتل کا فتویٰ لکھا مگر کسی طرح وہ بھاگ کر وہاں سے بچ نکلا
(نتائج التقلید ص ۳ الحیات بعد الممات ص ۲۲۸)
ام المومنین کا گستاخ مولوی عبدالحق بنارسی نے برملا کہا عائشہ علی سے لڑی اگر توبہ نہ کی تو مرتد مری اور یہ بھی دوسری مجلس میں کہا کہ صحابہ کا علم ہم سے کم تھا ان میں سے ہر ایک کو پانچ پانچ حدیثیں یاد تھیں اور ہم کو ان سب کی حدیثیں یاد ہیں۔
 (کشف الحجاب ص ۴۲)
غیر مقلدین کے عالم و مجتہد مسلم نواب صدیق حسن خان فرماتے ہیں اس زمانے میں ایک ریاکار اور شہرت پسند فرقے نے جنم لیا ہے جو ہر قسم کی خامیوں اور نقائص کے باوجود اپنے لئے قرآن و حدیث کے علم اور ان پر عامل ہونے کے دعویدار ہیں حالانکہ علم اورعرفان سے اس فرقے کو دور کا بھی واسطہ نہیں۔ یہ لوگ علوم آلیہ و عالیہ دونوں سے جاہل ہیں
(الحطہ ص ۱۵۳)
اس قسم کے بیسیوں واقعات ان کی کتب سے نقل کئے جاسکتے ہیں مگرھکذالقدر کفیٰ باالمرء عظۃکے طور پر کافی ہیں۔
مندرجہ بالااقتباسات میں کسی قسم کا کوئی اختلاف یا ابہام نہیں ہے کہ اس کی وضاحت کی جائے۔ یہ عبارات اپنے معانی میں خود اظہر من الشمس ہیں۔ بالخصوص نواب صاحب نے تو انتہا کردی۔ خصوصی طور پر نواب صاحب کے یہ الفاظ قابل غور ہیں (ہر قسم کی خامیوں کے باوجود اپنے لئے قرآن و حدیث کے علم اور ان پر عامل ہونے کے دعویدار ہیں)
آپ کو بخوبی اندازہ ہوگیا ہوگا کہ اس فرقے کی تاریخ پیدائش کیا ہے۔ پھر غیر مقلدین کہتے ہیں کہ غیر مقلد نام تم نے ہمارا رکھا ہے۔ ورنہ ہم اہلحدیث ہیں اور یہ اصطلاح حدیث کی تدوین کے وقت سے چلی آرہی ہے لہذا ہم محدثین کے مسلک پر ہیں۔ تم ہمیں کیسے کہتے ہو کہ ہم بعد میں پیدا ہوئے ہیں۔
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس موقع پر یہ بیان کیا جائے کہ اہل حدیث کی اصطلاح کتب متقدمین و متاخرین میں جو استعمال ہوئی ہے اس کا مصداق کون ہیں۔ اس سلسلے میں عرض ہے کہ جو حضرات حدیث کی خدمت میں روایتہ و درایتہ معروف ہوئے ہوں ایسے صاحبان علم و عمل کے لئے علماء امت اصحاب الحدیث اہل الحدیث اہل الاثر محدثین کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ درحقیقت ان اصطلاحات کے الفاظ میں تو اختلاف ہے معنی میں اتحاد ہے بالفاظ دیگر یہ سب باہم مترادف المعنی ہیں۔
اس دعوے کی دلیل کے لئے بجائے اصول حدیث کی کتب کے حوالے نقل کئے جائیں‘ قطع مسافت کے طور پر ایک غیر مقلد عالم مولانا محمد ابراہیم صاحب سیالکوٹی کی کتاب تاریخ اہل حدیث سے حوالہ نقل کردیتا ہوں،ملاحظہ ہو:
بعض جگہ تو ان کا ذکر لفظ اہل حدیث سے ہوا ہے اور بعض جگہ اصحاب حدیث سے بعض جگہ اہل اثر کے نام سے اور بعض جگہ محدثین کے نام سے مرجع ہر لقب یہی ہے۔
(تاریخ اہل حدیث ص ۱۲۸)
سیالکوٹی صاحب کی عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اصطلاحات ان کے نزدیک بھی متراف المعنی ہیں۔ بزعم خویش اہل حدیث یعنی غیر مقلدین اور انفاس قدسیہ اہل حدیث میں بچند وجوہ فرق ہے۔
جماعت یا فرقہ اسے کہتے ہیں جو اصول و فروع میں ایک نظریہ پر متفق ہیں جیسے متقدمین و متاخرین علماء کی کتب میں متعدد فرق کا ذکر ہے مثلا مرجئہ، قدریہ ،جبریہ، معتزلہ، خوارج، روافض وغیرہ ،ان فرقوں کا بطور فرقہ ذکر ہے مثلا مرجئہ بالکل اعمال کی ضرورت کو محسوس ہی نہیں کرتے، دخول جنت کے لئے نفس ایمان کو کافی سمجھتے ہیں تو  ایک خاص نظریہ رکھنے والے گروہ کو مرجئہ سے موسوم کیا گیا۔ جبکہ قابل غور بات یہ ہے کہ اہل حدیث اگر کوئی فرقہ ہوتا اگرچہ حقانی ہوتا تو اس طریق پر ان کا ذکر ضرور ہوتا یعنی یہ کہا جاتا کہ یہ خوارج کا مسلک ہے اور اس کے مقابلے میں اہل حدیث کا مسلک یہ ہے جبکہ ایسا نہیں تو اس طرح ذکر نہ کرنے کی وجہ یہی ہے کہ اہل حدیث کہتے ہی ایسے اشخاص و افراد کو ہیں جو خدمت حدیث میں روایتہ و درایتہ معروف ہو، قطع نظراس سے کہ اس کا اپنا فقہی مسلک کیا ہے۔
چنانچہ جب ہم محدثین کا تذکرہ دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ احناف شوافع مالکیہ حنابلہ سب ہی اہل حدیث گزرے ہیں چنانچہ ذیل میں ایسے چند افراد کا ذکر مشتے نمونہ از حروارے کے طور پر کئے دیتے ہیں۔ ملاحظہ ہو:
اہل الحدیث احناف
(۱)امام اعظم:     عبدالکریم شہرستانی نے چند افراد کے نام گنوائے ان میں سے ایک امام اعظم بھی ہیں اور آخر میں فرمایا وھوء لاء کلہم آئمۃ الحدیث ۔
اور اسی طرح علامہ ذہبی نے امام صاحب کو ان القابات سے یاد کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
 الامام الاعظم فقیہ العراق متورع عالم عامل متقی اور کبیر الشان ان القابات کے ذریعہ تذکرہ کرتے ہوئے آپ کو حفاظ حدیث میں شمار کیا ہے (تذکرہ الحفاظ ج ۱ ص ۱۵۸)
آپ کی جلالت پر سینکڑوں کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔ ہمارا اس وقت ان فضائل  کا استیعاب مقصود نہیں ہے۔
(۲)زمربن ہزیل (۳) امام ابو یوسف (۴) قاسم بن معن (۵) علی بن مسر (۶) امام طحاوی (۷) عافیہ بن یزید (۸) عبداﷲ بن مبارک، عبداﷲ بن مبارک فرماتے ہیں:
تعلمت الفقہ الذی عندی من ابی حنیفہ
(بغدادی ج ۱۳ ص۳۸۸)
(۹)یحیی بن سعید القطان (۱۰) یحیی بن معین،یحیی بن معین فرماتے ہیں۔ القرأہ عندی قرأہ حزہ والفقہ فقہ ابی حنیفہ علی ھذا ادرکت الناس (بغدادی ج ۱۳ ص ۳۴۷)
کہ میرے نزدیک قراۃ حمزہ کوفی کی اور فقہ حضرت امام اعظم کا راجح ہے۔تلک عشرہ کاملۃ
اہل الحدیث شوافع
(۱)صاحب مذہب امام ادریس شافعی رحمتہ اﷲ علیہ (۲) امام ترمذی رحمتہ اﷲ علیہ (۳) امام مسلم رحمتہ اﷲ علیہ (۴) امام نسائی رحمتہ اﷲ علیہ (۵) ابو خضر رحمتہ اﷲ علیہ (۶) ابن حبان رحمتہ اﷲ علیہ (۷) ابو السید رحمتہ اﷲ علیہ  (۸) ابن ماجہ رحمتہ اﷲ علیہ۔
اہل الحدیث مالکیہ
(۱)امام ابو نطیب (۲) قاضی ابو طاہر زملی (۳) امام ابن الباجی (۴) امام اسماعیل القاضی۔
اہل الحدیث حنابلہ
(۱)امام المقدسی (۲) الاشرم (۳) ابن الجوزی (۴) ابن شیخ عبدالقادر جیلانی یعنی ابوبکر عبدالرزاق۔
یہ چند اسماء بطور نمونہ ذکرکئے ہیں اس میں غور کرنے کی بات یہ ہے کہ یہ مسالک اربعہ کے محدثین ہیں۔ ان سب کے محدثین اور اہل الحدیث ہونے پر اتفاق ہے مگر آپ غور تو فرمائیں۔ ان میں حنفی شافعی مالکی حنبلی کیوں ہیں جبکہ ہمارے زمانے کے نام نہاد اہل الحدیث تو نہ حنفی ہیں نہ شافعی ، مالکی حنبلی ہیں۔ اس فرق کو آپ ایک مثال سے سمجھیں۔ اگر میں آپ سے کہوں کہ زید کا مسلک کیا ہے؟ تو جواب دینے والا اگر یہ کہے کہ وہ تو اہل الحدیث ہے تو آپ انصاف سے بتائیں کہ آپ کے ذہن میں کیا آئے گا۔ لامحالہ طور پر ایک فرقے کا تصور جسے ہمارے دیار میں وہابی کا لقب ملا۔ اب بزعم خویش وہ اہل الحدیث کہلاتے ہیں۔ پس منظر اس کا یہ ہے کہ اس فرقہ نوپید کا نام شروع میں محمد بن عبدالوہاب نجدی کے ہم مذہب ہونے کی وجہ سے وہابی کہا جانے لگا۔ بعد میں ان کے فطری حلیف انگریز سرکار نے اہل حدیث سے مسمیٰ کیا۔ چنانچہ مولانا حسین بٹالوی صاحب رقم طراز ہیں:
بخدمت جناب سیکریٹری گورنمنٹ!  میں آپ کی خدمت میں سطور ذیل پیش کرنے کی اجازت اور معافی کا خواست گار ہوں۔  ۱۸۸۶ء میں میں نے اپنے ماہواری رسالہ اشاعتہ السنہ شائع کیا تھا جس میں اس کا اظہار تھا کہ لفظ وہابی جس کو عموما باغی اور نمک حرام کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے لہذا اس لفظ کا استعمال مسلمانان ہندوستان کے اس گروہ کے حق میں جو اہل حدیث کہلائے جاتے ہیں اور وہ ہمیشہ سے سرکار انگریز کے نمک حلال اور خیرخواہ رہے ہیں اور یہ بات بار بار ثابت ہوچکی ہے اور سرکاری خط و کتابت میں تسلیم کی جاچکی ہے۔ ہم کمال ادب و انکساری کے ساتھ گورنمنٹ سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ سرکاری طور پر اس لفظ وہاب یکو منسوخ کرکے اس لفظ کے استعمال سے ممانعت کا حکم نافذ کرے اور ان کو اہل حدیث کے نام سے مخاطب کیا جاویٍ اس درخواست پر فرقہ اہل حدیث تمام صوبہ جات ہندوستان کے دستخط ثبت ہیں۔
(اشاعتہ السنہ ص ۲۴ جلد ۱۱ شمارہ ۲)
بٹالوی صاحب کی اس واضح المعنیٰ عبارت پر تبصرہ کی ضرورت نہیں، ٍ آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے کہ اس اصطلاح الحدیث کی الاٹمنٹ ان کے دیرینہ یار انگریز نے بطور ہدیہ عنایت کی ہے۔ بے شک کلمتہ حق ارید بہا الباطل اس موقع کے لئے کہا گیا ہیٍ۔ اس حقیقت سے یہ بات واضح ہوگئی کہ جو محدثین گزشتہ صدیوں میں گزرے ہیں وہ فرق میں کسی نہ کسی امام کے عیال تھے اور اگر کوئی ایسا نہ تھا تو وہ از خود فقیہ و مجتہد ہوتا تھا۔
سابق میں جو بیان ہوا یہ تو تھا تصویر کا ایک رخ۔ اس فرقے کے مقابلہ میں احناف کب سے ہیں‘ ان کا تاریخی پس منظر کیا ہے۔ اس کو ملاحظہ فرمائیں۔
(۱)غیر مقلدین کا فرقہ چودھویں صدی میں عبدالحق بنارسی نے بنایا ہے جبکہ احناف  " خیر القرون قرنی ثم  الذین یلونہم  " کا مظہر ہیں اور دوسری صدی احناف کا محور اجتہاد رہا اور ابتداء ہوئی۔
(۲)امام اعظم ابو حنیفہ رحمتہ اﷲ علیہ کبار تابعین میں سے ہیں جبکہ بانی غیر مقلدین عبدالحق بنارسی تابعی تو کیا تبع تابعی تو کیابلکہ گیارہویں صدی کے کبار علماء تک کا دیدار نہ کرسکا۔
(۳)حضرت امام صاحب رحمتہ اﷲ علیہ کے متعلق احادیث میں بشارت ہے کہ اگر علم ثریا ستارے پر بھی ہو تو تب بھی ایک فارسی شخص اسے حاصل کرلے گا۔ جبکہ عبدالحق بنارسی کے لئے کوئی ایک موضوع مخترع روایت بھی موجود نہیں ہے۔ ہاں اب گڑھ لیں تو اور بات ہے۔

  • Pin It

No comments:

Post a Comment